کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی اور ہماری ذمہ داری

منگل 12 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

آج 11مئی کورونا لاک میں نرمی کا پہلا دن ہے اور مجھے اتفاقاً بازار میں جانے کا اتفاق ہوا،جہاں میں نے دیکھا کہ بازار میں لوگوں کا ایک جمِ غفیر اُمڈ آیا ہو۔ ہر طرف مردو خواتین ، بچے ، بوڑھے خریداری اور چہل پہل کرتے دکھائی دیے۔جبکہ حکومت نے لوگوں کو بڑی سختی سے ہدایات(SOPs)پر عمل کرنے کاپابند کیاتھا ،لیکن بازار میں موجود خریدار، عوام اور دکاندار اِن ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مِن مانیاں کرنے میں مشغول دکھائی دیے۔

اِن حالات کو دیکھتے ہوئے مِیں نے اپنی خریداری کے ارادے کو منسوخ کردیا اور بغیر کچھ خریدے ہی واپس آگیا۔جبکہ اِس کچھ دورانیے میں مِیں نے کپڑوں، جوتوں، کراکری، جنرل سٹورز اور بوتیک کی دُکانوں پر بے تحاشا رش دیکھا۔
اِس ساری صورتحال اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک طرف تو یہ خریداری اور چہل پہل بجا دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ عنقریب عیدالفطر کی آمد ہے۔

(جاری ہے)

عیدالفطر ایک مذہبی تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی economyاور flow of cash/moneyکا ذریعہ بھی ہے جسے Eid economyبھی کہتے ہیں۔اِس Eid economyکی وجہ سے مُلک میں پیسے کی گردش ہوتی ہے ، لوگ جوتے ،کپڑے اور دیگر اشیاء خریدتے ہیں جس سے پیسہ کپڑے اور جوتے بنانے والی کمپنیوں اور کارخانوں میں جاتاہے ،وہاں کام کرنے والے لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور یوں ایک معیشت کا پہیہ چلتا ہے ۔

یہ چیز اِس Eid economyکا مُثبت پہلو ہے۔
جبکہ میں اِس تحریر میں لوگوں کو کم ازکم اِس عید پر کفایت شعاری کا درس دوں گا، میں لوگوں سے گذارش کروں گا کہ آپ اگر اِس عید پر دو سوٹ بنانا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی اِس عید پر ایک سوٹ یا ایک جوتوں کا جوڑا خرید لیں ۔ آپ اگر ایک سوٹ خریدنا چاہتے ہیں تواگر مُمکن ہو سکے تو آپ مہربانی کرکے اِس دفعہ عید اپنے مُوجودہ کپڑوں میں ہی گزارلیں اور نئے سوٹ کا اِرادہ کچھ عرصہ کیلئے موخر کر دیں۔

لوگوں کو اِس مُوقع (point of time)پر اپنی بچت کو محفوظ رکھنا ہوگا،صرف ضروری اشیاء (Essential items)پر خرچ کرنااور luxury items ترک کرنا ہوگا۔ لوگوں کو مُستقبل میں یہی بچت کوئی ہُنر سیکھنے، تعلیم بڑھانے یا کاروبا ر کرنے کیلئے خرچ کرنا ہوگی۔
دوسرا میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کا یہ نہایت عُمدہ فیصلہ ہے کہ جس نے کاروبار کی ٹائمنگ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک کر دی ہے۔

اِس سے ایک طرف لوگوں کو صبح جلد کاروبار شروع کرنے جبکہ دوسری طرف دن کی روشنی (Day light)کو موثئر اِستعمال کرنے کی عادت پڑے گی۔ یورپ ،چائنہ ، سنگاپور میں (موبائل شاپس، واچ، بیگ، جوتے کپڑے کی دکانیں)شام چھ بجے کے بعد زیادہ تر کاروباربند ہوجاتاہیں،اور صرف کھانے پینے کے ریستوران، مالزاور میڈیکل شاپس وغیرہ رات دس بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ہم بھی اِن چیزوں پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔


کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد میری حکومت اور عوام سے گذارش ہے کہ وہ بازاروں میں لوگوں کی تعداد اور رش کو مونیٹر کرے۔حکومت ضلعی انتظامیہ کی مدد سے کچھ اِس طرح کا بندوبست کرے کہ بازار میں زیادہ لوگ ایک ساتھ نہ آجائیں۔اِس مقصد کے لیے شہروں کو مختلف زونز میں تقسیم کیاجائے اور اِس بات کا بندوبست کیاجائے کہ فلاں دن یا فلاں ٹائم صرف شہر کے فلاں زون کے لوگ ہی بازار میں جاسکیں۔

مذید یہ کہ بازاروں میں لوگوں کیلیے Entry&Exit Pointsمختص کیے جائیں جہاں صرف Manual/electronic Passesکے تحت ہی لوگوں کو بازاروں میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ بازاروں اور چوکوں میں پولیس اور رینجرز کے دستے بھی تعینات کیے جاسکتے ہیں جو لوگوں سے بازار جانے کا مقصد اور اندازاً دورانیہ پوچھیں،اور ایک اندازے سے زیادہ وقت بازار میں صرف کرنے والے لوگوں پر جرمانہ یا کوئی penaltyلگائی جائے۔

یقین کیجیے پاکستان میں جس قدر شخصی آزادی ہے شاید ہی کسی اور مُلک میں ہو، جب بھی جس شخص کا دل چاہے وہ بازار، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، بس اڈے چلا جاسکتاہے اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی بھی خوشی غمی ہو لوگ ٹینٹ لگا کر راستہ بند کر دیتے ہیں، لوگ رات گزارنے کیلیے مسجدوں اور درباروں پر چلے جاتے ہیں، یہ ہمارے وہ عمومی رویے ہیں جن کو ہم نے کبھی نوٹ نہیں کیا اور ہمارے یہ رویے اب کورونا کے خلاف جنگ میں مشکل پیش کر رہے ہیں۔


اب اِس کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہمیں بڑی تیزی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف آنا ہوگا،حکومت کو آن لائن شاپنگ اور آن لائن بزنس کو پروموٹ کرنا ہوگا،مُلک میں انٹرنیٹ ، موبائل فونز، Tablets، Point-of-saleکا سامان اور ڈیجیٹل کرنسی کے اِستعمال کو عام کرنا ہو گا۔ حکومت Bazar Entry-Exit Pointsکے پراجیکٹ بآسانی انجئینرنگ یونیورسٹیز یا وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے کر سکتی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ اب حکومت اور عوام کو بازاروں کو صاف بھی رکھنا ہوگا، بازاروں میں صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹ بھی بناناہوں گے۔حکومت اور عوام کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، اب ہم اُن طُور طریقوں کے مُطابق مذید زندگی نہیں گزار سکتے جس طرح ہم پہلے زندگی گُزاررہے تھے، ورنہ دوسری صورت میں ہم کورونا یا معیشت کسی ایک کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :