کرونا وبا سے سیکھے جانیوالے چند اچھے سبق

ہفتہ 16 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے تقریباً چار ماہ سے پوری دنیا اور اندازاًدو ماہ سے پاکستان میں کرونا وبا اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہی ہے کرونا وبا سے ایک طرف دنیا میں اب تک تقریباً تین لاکھ لوگ لُقمہ اجل بن چکے ہیں وہیں دوسری طرف لاکھوں مریض اِس بیماری سے نبرد آزما ہیں۔اِس وبا کیوجہ سے امریکہ ،یورپ سمیت پوری دنیا کی معیشت بُری طرح تباہ ہوچکی ہے ، ائیرلائن اور ہوٹل انڈسٹری کا جنازہ نکل چکاہے اور اِسکے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ اور انڈسٹری کی بندش کیوجہ سے پٹرول اور تیل کے اِستعمال اور قیمتوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

مذید یہ کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کے بند ہونے سے رسمی تعلیم کا سِلسلہ بھی تقریباً معطل ہو چکا ہے۔اِس صورتحال میں آنیوالے چند دنوں اور مہینوں کی بڑی ہی بھیانک تصویر منظرِعام پر نظر آ رہی ہے۔

(جاری ہے)


لیکن اِس سب کچھ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں معاشرتی اور سماجی سطح پر کچھ بڑے ہی دلچسپ حقائق اور واقعات سامنے آئے ہیں۔

مثلاًکرونا وبا نے ثابت کردیا کہ پاکستان جیسے ملک کے روایات میں جکڑے ہوئے معاشروں میں بھی شادی بیاہ ،بڑی بڑی تقریبات کی بجائے سادگی سے انجام پا سکتے ہیں۔نکاح کی سُنت کوپانچ پانچ سو مہمانوں کی شرکت ، مہندی وبرآت کی رسومات اور زیورکپڑوں کے لوازمات کے بغیر بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔جی ہاں !میں اُس معاشرے کی بات کر رہا ہوں جہاں لوگ صرف شادی کارڈز کی چھپوائی پر پندرہ ،بیس ہزار روپے خرچ کر دیتے ہیں جو کہ محض ایک اطلاع کا پیغام ہوتا ہے۔

کرونا وبا کے بغیر اِن گہری رسومات کو توڑنا شاید مُمکن نہ ہوتا، لیکن بادلِ نخواستہ ہی سی کورونا نے ہمیں اپنی اِس روش کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔اِس وباکے دوران اب بھی پاکستان میں لوگوں کی شادیاں اور نکاح بغیر اجتماعات کے، بغیر پُر تکلف کھانوں کے اور نسبتاً کم سازوسامان کے ساتھ ہو پا رہی ہیں،جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
کرونا وبا کا پاکستانی قوم پر دوسرا بڑا احسان ،بازاروں کی مونیٹرنگ اور جلدی بندش ہو گا، کیونکہ پاکستان ہی شاید دنیا کا وہ واحد مُلک ہو جسکے بازاروں میں رات گئے تک شاپنگ (جوتے ،کپڑے، کمپیوٹر، موبائل فونز، ہارڈوئیر)کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ باقی دنیا کے ملکوں میں شام چھ بجے کے بعد بازار اور کاروباری مراکز بند کروا دیے جاتے ہیں، اور صرف میڈیکل سٹورز، ریستوران وغیرہ کو رات گئے تک کُھلے رہنے کی اِجازت دی جاتی ہے۔

بازاروں کی ٹائمنگ ریگولیٹ کرنے سے خریداروں میں بھی جلد خریداری کی عادت پیداہوئی ہے اوریہ رُجحان کہ ایک چیز کو خریدنے کیلئے 4-5لوگ دُکانوں میں گُھس جائیں،وہ چیز اب نسبتاً کم ہوگئی ہے۔اِسی شاپنگ سے جڑی بازاروں میں کھانے پینے کی وہ دُکانیں اور ڈھابے بھی ہیں جن کے بند ہونے سے لوگوں کے کھانے کی عادات اور کھانے کے معیار بڑی حد تک بہتر ہوئے ہیں اور وہ لوگ جو ایک بے ہنگم اور بے وقت بازاروں میں جاکر سموسے ،چاٹ، برگر اور نہ جانے کیا کچھ اُلٹی سیدھی چیزیں کھانے کے رسیا تھے وہ سب کچھ بھی اب بند ہوچکاہے اور لوگوں کی صحت اور قوتِ مدافعت میں بہتری آئی ہے۔

کرونا وبا کیوجہ سے تیسرا شُعبہ جس میں مَیں سمجھتا ہوں کہ کچھ تبدیلی آئی ہے وہ ہے ہسپتال۔کیونکہ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے OPDوارڈز میں کرونا کے علاوہ دیگر مریضوں کی تعداد میں حیران کُن طور پر کمی ہوئی ہے ۔دراصل اب ہسپتالوں میں صرف وہی شخص جاتاہے جو حقیقتاً بیمارہو یا ایمرجنسی کی صورتحال میں ہو۔اب کرونا کی وجہ سے ہسپتال میں ایسا کوئی مریض نہیں آتا جسکے صرف پیٹ یاسَرمیں درد ہو ،اور اُسے ڈاکٹر کو چیک کروانا ہو۔

مذیدبرآں ہسپتالوں میں کرونا کے پھیلاؤکے ڈر سے مریضوں کے ساتھ آنیوالے لواحقین کی تعداد بھی بڑی حد تک کم ہو گئی ہے۔مجھے آج تک پاکستان میں ہسپتالوں اور ائیرپورٹس پر مریض یا مسافر کیساتھ درجن بھر آنیوالے لوگوں کی کبھی سمجھ نہیں آئی،یہ ٹرینڈ صرف ہماری قوم کا خاصہ ہی کیوں ہے۔
کرونا وبا کی شکل میں اِس قوم پر ایک بڑا کرم ، مذہبی اجتماعات پر پابندی ہوگا۔

مذہبی اجتماعات کی اجازت صرف اورصرف چند مُخصوص جگہوں پر ہی ہونی چاہیے۔ پاکستان ہی شاید وہ مُلک ہے جس میں اِسقدر مذہبی آزادی دی جاتی ہے کہ لوگ جب چاہیں جہاں چاہیں ایسے اجتماعات منعقد کروانا شروع کردیں اور عوام کے راستے بند کر کے بِلاوجہ اُنکے لیے تکلیف کا سبب بنیں۔جبکہ یہی مذہبی حلقوں کے لوگ دوسرے مُلکوں میں بڑے ڈسپلن سے مُختص کردہ جگہوں پر مذہبی رسومات اَدا کر رہے ہوتے ہیں۔

اس وبا کے دوران چونکہ سکول، کالج،یونیورسٹیزبند ہیں اور رسمی تعلیم کا سلسلہ کافی حد تک بند ہو چُکا ہے تو اِس صورتحال میں طلبہ اور اساتذہ بڑے اشتیاق سے غیر رسمی تعلیم(مثلاًکمپیوٹر سکلز، سافٹ ویئر، مصوری،خطاطی)اور دیگر سکلز سیکھنے میں مصروف ہیں۔طلبہ اور اساتذہ میں کُتب بینی (Book reaking)کی عادت دوبارہ اُجاگر ہو رہی ہے اور خاندان کے لوگوں کے آپسمیں بیٹھنے اور ایکدوسرے کو وقت دینا شروع ہوگئے ہیں، جو کہ ایک اچھی روش ہے۔

کرونا وبا کے دوران چونکہ ٹرانسپورٹ بڑی حد تک کم ہوگئی ہے جس سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے اور بڑے شہروں میں Air Quality indexریکارڈ حد تک بہتر ہو گیا ہے۔لاہور جیسے شہر میں ٹریفک کا دھواں کم ہونے کیوجہ سے ہوا صاف ہوگئی ہے اور سانس اور دَمہ کی بیماریوں میں بڑی حد تک کمی ہوئی ہے۔ اِسی طرح فضائی سفر کم ہونے کیوجہ سے بادلوں کے اوپر کی فضاء بھی بہتر ہوئی ہے جہاں ہوائی جہازوں کے دھوئیں کے اخراج کیوجہ سے اُوزون کی تہہ کو خطرات لاحق تھے۔

اِسی طرح لوگوں کے میل جول ، ملنے ملانے ، چھینکنے اور کھانسنے کے طریقوں میں کسی حد تک بہتری آئی ہے ، لوگوں میں ہاتھ دھونے کے رُجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے اور لوگوں نے گھروں اور دفتروں کومذید صاف سُتھرا رکھنا شروع کردیا ہے۔
مَیں نے اِس تحریر میں آپ لوگوں کے سامنے کرونا وبا کے کچھ خوش آئند پہلو رکھے ہیں،شاید کرونا کے خاتمے کے بعد اِن تمام پہلوؤں پر عمل پیرا ہونا عملاً مُمکن نہ ہو، لیکن حکومت کو چند فیصلوں (مثلاًشادی تقریبات، بازاروں کی ٹائمنگ، مذہبی اجتماعات پر پابندی)پر عمل درآمد مُستقل کرنے اور انہیں آئین اور قانون کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے،جن پر عمل درآمد ہر صورت مُمکن ہو۔

اور یہ بھی عین مُمکن ہے کہ کروناقدرت کیطرف سے ہمارے لیے ایک وارننگ ہو کہ ہم لوگ سنبھل جائیں ، ورنہ دوسری صورت میں ہم لوگ شاید کرونا کے خاتمے کے بعد بھی نہ بدل پائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :