ہمارے معاشرے کے لیے چند نئے ٹیکنیکل شعبوں کی ضرورت

منگل 26 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں پاکستان میں چند نئے شعبوں کی ضرورت پر ضرور دیا تھا،جو کہ زیادہ تر نان ٹیکنیکل شعبے تھے۔جبکہ میں اِس تحریر میں اپنی سوسائٹی کیلئے چند نئے ٹیکنیکل شعبے متعارف کروانے کا خواہاں ہوں۔اِن نئے ٹیکنیکل شعبوں کو متعارف کروانے کا مقصد سوسائٹی کو نئے ٹرینڈز سے متعارف کروانا، سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کا معیارِزندگی بہتر بنانا،اوربیرونِ ملک میں اِن ٹیکنیکل شعبوں میں مین پاور کی کمی کو پورا کرکے زرِمبادلہ میں اضافہ کرنا ہے۔

ہمارے معاشرے کے لوگ اِن نئے شعبوں سے وابستہ ہنر اور سِکل سیٹ سیکھ کر اپنے لیے بہتر روزگار تلاش کرسکتے ہیں۔اِن نئے شعبوں کی ضرورت دنیا میں بدلتے ہوئے ڈیجیٹل ٹرینڈ اور کرونا وبا کے پیشِ نظر آنیوالی عالمی تبدیلیوں کو مدِنظر رکھ کر محسوس کی گئی ہے۔

(جاری ہے)


سافٹ وئیر اورآئی ٹی انڈسٹری دنیاکی ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے اور کرونا وبا کے بعد اِس انڈسٹری کی اہمیت اور افادیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ،جسکی ایک وجہ سروس انڈسٹری (تعلیم وتدریس، کسٹمر کئیر،آن لائن شاپنگ، کنسلٹنسی بزنس وغیرہ)کا بہت حد تک ورچولائیزیشن اور ریموٹ ایکسس پر مُنتقلی ہے۔

اِس کرونا وبا کیوجہ سے بہت سے کام (آفس ورک،g training cookin، فٹنس ٹرینیگ )آن لائن ہو گیا ہے ۔اب چونکہ یہ سب بزنسز ویب سائیٹس اور موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے ہو پا رہے ہیں تو آٹی کمپنیز اور سافٹ وئیر ہاوسز کو یہ Appsبنانے کیلئے سافٹ وئیر انجنئیرزاور آئی ٹی ایکسپرٹس کی ضرورت پڑ رہی ہے۔اور اُنکی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ایک اندازے کیمطابق امریکہ میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میںSystem Engineersاور.NET Developersکی نوکریوں میں خاطر خواہد اضافہ ہوا ہے، .NET Developersکا کام نئی ایپلیکیشن بنانا اور آن لائن ویب سائٹس بنانا ہوتا ہے۔

اِسی طرح مارچ اور اپریل کے مہینوں Amazon, CISCO, Walmart, Parson Infrastructureجیسی کمپنیوں میں ریموٹ شاپنگ اور Telecommutingکے شعبوں میں ریکارڈ نوکریاں دی گئی ہیں۔اِس ضمن میں ہماری حکومت اِس Future opportunityکو دیکھتے ہوئے مُلک میں آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کر سکتی ہے۔مُلک میں آئی ٹی ایکسپرٹس پیدا کر سکتی ہے اور مُلک میں انجئینرنگ اور I.T.کے مذید کورسز اور ڈپلومہ کرواکے اِن سٹوڈنٹس کو انٹرنیشنل مارکیٹ کے لئے تیا رکرسکتی ہے۔

یہ آئی ٹی ایکسپرٹس مُلک میں آئی ٹی کا ایک انقلاب برپاکرنے کے ساتھ ساتھ مُلک کو لاکھوں ڈالرزکا زرِمُبادل بھی کما کردے سکتے ہیں۔ اب ہمیں ایک حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کرونا وبا کے بعد دُنیا بڑی تیزی سے روایتی طریقوں کو چھوڑکر سائنسی اور تیکنیکی طریقوں پر مُنتقل ہوجائے گی، مُلکوں اور دیسوں میں 4G/5Gانٹرنیٹ کا اِستعمال بڑھ جائے گااور اِس سارے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے مُلکوں اور شہروں کو بڑے ہی ماہر قسم کے لوگوں کی ضرورت پڑے گی۔

جبکہ ہمارے ملک میں آئی ٹی سکلز اور پراجیکٹس کا حال یہ ہے کہ الیکشن آفس کا ووٹنگ کا آرٹی ایس سسٹم ہو یا ٹارزن قسم کے وفاقی وزیرِریلوے کا آن لائن ٹکٹنگ سسٹم ہو ،دونوں ہی ایک دن میں بیٹھ جاتے ہیں۔اِسکے برعکس دنیا کے آٹی سسٹمز بڑے ہی معیاری اور reliableہوتے ہیں جنکو operationalرکھنے کے لیے بڑے ہی تربیت یافتہ اور ہنرمند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اِسی طرح ٹیکنیکل شعبوں میں دوسرا شعبہ جسکی مُستقبل میں مانگ بڑھ سکتی ہے وہ ہے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور ماحول کیلئے روبوٹس اور ڈرون فوٹوگرافی(Robot/Drones photograpy)۔ اِس قسم کی روبوٹ یا ڈرون فوٹوگرافی کا مقصد عمارتوں کے اندر یا باہر کھلے ماحول میں ربوٹس یا ڈرونز کی مدد سے تصاویرلینا اور صورتِ حال کا جائزہ لینا ہوتا ہے اوراگر ضرورت پڑے تو اِن ربوٹس کے ذریعے اُن جگہوں تک ضروری اشیاء بھی پہنچائی جاسکتی ہیں۔

آپ یقین کریں دنیا میں اِس کرونا وبا کے دوران بڑی تیزی سے ربوٹس کی مدد لیکر مریضوں تک ضروری ادویات اور ضروری سامان پہنچایا جا رہا ہے تاکہ کرونا مریضوں سے ڈاکٹروں اور نرسوں تک یہ بیماری منتقل نہ ہو سکے۔ دنیا چھوٹے بڑے quad-coptersاور ڈرونز کے ذریعے ہسپتالوں اور عوامی مقامات کی جراثیم کُش ادویات سے صفائی کا کام بھی کررہی ہے۔اِن ربوٹس یاڈرونز کو بنانے یا اِنکو چلانے کیلئے آپ کو ماہر لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے،جبکہ ہماری حکومت ووکیشنل ٹرینیگ انسٹیوٹس یا کسی اور ادارے کے تعاون سے عوام کو اِن ڈرونز یا ربوٹس کو چلانے اور اُنکی reparingسے متعلق ٹرینیگ دے سکتی ہے۔

حکومت کرونا وبا کے خاتمے کے بعد سکولوں کے شام کے اوقات میں مختلف طرح کے Robots/drones Training and Repairingکے نام سے ٹیکنیکل کورسز شروع کرواسکتی ہے۔ پاکستان میں نسٹ یونیورسٹی ہر سال روبوٹس کا ایک مقابلہ (competition)منعقد کرواتی ہے،اور یہ کوشش بھی صرف ایک سالانہ competitionمنعقد کروانے تک محدود ہے جبکہ اِس کے برعکس اِسeventمیں شامل ہونیوالے یا جیتنے والے روبوٹس کی کِسی کمپنی کے ذریعے کمرشل بنیادوں پر پیداوار مقصد ہونا چاہیے تھا جس سے پتہ چلتا کہ ہماری یونیورسٹیاں واقعی مُلکی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا کر پارہی ہیں ۔

تیسراحکومت ،پرائیویٹ ادارے اورSMEsکو سہولیات فراہم کر کے انہیں فری لائنسنگ اور آن لائن سروسز پیش کرنے کا موقع مہیا کر سکتی ہے۔ یونیورسٹیز سے پاس آؤٹ ہونیوالے گریجویٹس free-lancingکا کاروبا ر شروع کرسکتے ہیں اور لوکل یا انٹرنیشنل مارکیٹ میں ویب ڈویلپمنٹ ، ڈیٹا انٹری ، ٹرانسلیشن یا پروگرامنگ کے پراجیکٹس کر سکتے ہیں اور reasonableرقم کماسکتے ہیں۔

اِس سلسلے میں ایک بڑا مسلئہ بیرونِ ملک سے آن لائن پر اجیکٹس کی پے منٹ کو وصولی ہے جس کے لیے Paypalاکاؤنٹ یا کریڈٹ کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ پاکستان میں کریڈٹ کارڈ کا حصول ایک مُشکل کام ہے۔
چوتھی قسم کا کاروبار جوکہ حکومت متعارف کرواسکتی ہے وہ ائیرکنڈیشنڈ، فریج کی رئیپرنگ، پلمبنگ، فٹنگ وغیرہ ہیں۔اگرچہ یہ پیشے ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ اِن پیشوں سے وابستہ لوگ کوئی اتنے ماہر اور ٹیکنیکل نہیں ہیں۔

اِن لوگوں کے پاس کچھ ناکافی سا تجربہ ہوتا ہے جبکہ باقی کا تجربہ یہ لوگوں کے فریج اور اے سی اور پانی کے پائپ وغیرہ خراب کرکے حاصل کرتے ہیں، اور مذید یہ کہ اِن پیشوں سے متعلق بنیادی تعلیم تو اِن لوگوں کے پاس سِرے سے ہوتی ہی نہیں ہے۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ نہ تو لوکل مارکیٹ میں اور نہ ہی انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی ویلیو بناپاتے ہیں اور اپنی محنت کا خاطر خواہ معاوضہ وصول کرپاتے ہیں۔

اِن میں سے کچھ ماہر مکینک (ائیر کنڈیشن، پلمبنگ، فٹنگ) انٹرنیشنل مارکیٹ اور مڈل ایسٹ میں تعلیمی سند(سِکل ڈپلومہ)نہ ہونے کیوجہ سے مارکھا جاتے ہیں اور لیبر ویزہ ہونے کے باوجودکم پیسوں پر فریج، اے سی، ٹی وی یا کمپیوٹر ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں اور ایجنٹ یا کفیل کے ہاتھوں ذلیل ہو پا رہے ہوتے ہیں۔حکومت ان لوگوں کو ہنر کیساتھ ساتھ شارٹ کورسز کی شکل میں ضروری تعلیم دے سکتی ہے تاکہ یہ لوگ اپنے ہنر کا مناسب معاوضہ حاصل کر سکیں۔

ٹیکنیکل شعبوں کے زمرے میں پانچواں شعبہ ہے،ہوٹل مینجمنٹ یا ہوٹل انڈسٹری۔ دنیا میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ہوٹل انڈسٹری بھی ایک بہت بڑا شعبہ ہے جس سے بہت سے لوگوں کا کاروبار جڑا ہوتا ہے ، مثلاً ہوٹل سٹاف ، کیڑنگ سٹاف، لانڈری سٹاف وغیرہ۔ پوری دنیا میں فلپائنی میڈز(maids)ہوٹل مینیجمنٹ اور ہوسپٹلٹی سروسز میں سرِفہرست ہیں۔مشرقِ وسطیٰ، یو اے ا ی اور قطر کے زیا دہ ترہوٹل سٹاف فلپائنی مردو خواتین ہوتے ہیں۔

فلپائن میں باقاعدہ حکومت کی زیرِسرپرستی مردوخواتین کو ہوٹل مینیجمنٹ اورcateringکی تربیت دی جاتی ہے اور پھر یہی فلپائنی شہری سنگاپور،ہانگ کانگ ،Macaoاورمڈل ایسٹ کے ہوٹلز میں سروسز دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے زرِمبادلہ میں اضافہ کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان بھی اِس مثال پر عمل کرکے اپنے لوگوں کو ہوٹل مینیجمنٹ اور Hospitality servicesکی ٹرینیگ دے سکتا ہے اور پھر اِس سکلڈ لیبر کو باقی دنیا میں بھیج کر زرِمبادلہ کماسکتاہے۔

Telehealth servicesایک بہت ہی زبردست اور اُبھرتا ہوا(emerging)پروفیشن ہے۔ کرونا وبا کے بعد اِس ٹیلی ہیلتھ کے شعبے کی ضرورت اور افادیت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے جب مریضوں کے آن لائن معائنہ کے لیے نِت نئے طریقے دریافت کیے گئے ہیں۔ٹیلی ہیلتھ سروس میں مریض گھر پر بیٹھ کر موبائل ایپلیکشن کے ذریعے ڈاکٹر سے connectہو جاتاہے اور ڈاکٹر کو اپنی بیماری سے متعلق آگاہ کرسکتا ہے۔

اِس ایپلیکیشن کے ذریعے ڈاکٹرز مریضوں کے جسم کے متعلقہ حصے کا بذریعہ تصاویر یا وڈیو معائنہ کرتے ہیں اور انہیں دوا تجویز کر دیتے ہیں۔اِس طریقہ علاج میں اگر مریض ایمرجنسی میں ہو یا اگر ڈاکٹر ضروری سمجھے تو وہ مریض کے گھر پر جاکر بھی اُس متعلقہ مریض کا معائنہ کر لیتا ہے۔امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں یہ طریقہ علاج کام کررہا ہے اور عنقریب میں اِس شعبے میں ترقی کے زبردست مواقع نظر آرہے ہیں۔

میری اِس ضمن میں حکومت سمیت پرائیویٹ شعبئہ صحت سے گذارش ہے کہ وہ اِس شعبے کو پاکستان میں متعارف کروائیں جسکی 70فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور جنہیں ڈاکٹروں تک براہِ راست رسائی میسر نہیں ہے۔اِس طرح کے پراجیکٹس پر کام کر کے حکومت صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیساتھ ساتھ ملک اور بیرونِ ملک میں ڈاکٹروں ، سکلڈ آئی ٹی ایکسپرٹس اور سٹاف کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔

نئے پیش کیے جانیوالے شعبوں میں ساتواں اور آخری شعبہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ ہے، آنیوالے دنوں میں آن لائن شاپنگ اور آن لائن سروسز کے پروموٹ ہونے کیوجہ سے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہونیوالا ہے ۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا شعبہ براہِ راست I.Tانڈسٹری سے جڑا ہوتا ہے جس کے لیے SEO، ویب مارکیٹنگ، سوشل بلاگنگ، وڈیو مارکیٹنگ جیسی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان اِس سکل کے لیے اپنے لوگوں کو تیار کرسکتا ہے اور آئندہ آنیوالے دنوں میں بیرونِ ممالک میں اِس صلاحیت کے حامل لوگوں کو بھجوا لر خاطر خواہ زرِمبادلہ کما سکتا ہے۔
اپنی اِس تحریر میں ،میں نے اُن چند پروفیشنز کا تذکرہ کیا ہے جو کہ آنیوالے کچھ عرصہ میں بہت مقبول ہونیوالے ہیں، اور اِن چند شعبوں کی تعلیم ،ہنر اور مہارت سیکھ کرقارئین اِن شعبوں کو اپنانے اور اِن پیشوں میں خاطر خواہ ترقی کر سکتے ہیں۔جبکہ اِن چند شعبوں کی ریاستی سطح پر سرپررستی کی جائے تو پاکستان اپنے زرِمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔شکریہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :