
سوشل میڈیا کے سیاسی جنگجوؤں کے نام
اتوار 19 اکتوبر 2014

ذبیح اللہ بلگن
مجھے سیاسی ومذہبی جماعتوں کے کارکنان پر حیرت ہوتی ہے ۔وہ اس تواتر اور کامل یکسوئی سے ایک دوسرے کے خلاف ہزرہ سرائی کر رہے ہیں کہ اس دوران وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اس ”کارخیر“کی ادائیگی میں کہیں وہ راستی اور صداقت کی صراط سے بھٹک تو نہیں گئے ۔ کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابسطہ افراد جس نفرت اور عداوت کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں وہ عصبیت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ حق اور باطل اور شر و خیر کی بحث بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اب وہ ہر حال میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کی فتح چاہتے ہیں ۔
(جاری ہے)
اس ”عظیم کام“کیلئے انہیں جس حد تک گزرنا پڑے وہ گزرتے ہیں ۔
بازاری زبان کا استعمال تو کوئی زکر ہی نہیں ایسے ایسے جھوٹ کی پلندے باندھنے سے بھی احتراز نہیں برتا جاتا جن کے متعلق ابلیس بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ”تم نے عمران خان یا نواز شریف کے بارے میں جو کچھ کہا ہے میرا ذہن تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسے بھی کہا جاسکتا ہے “۔ یہاں میں تھامس ہابس کا زکر کرنا چاہوں گا ۔ تھامس ہابس ایک انگریز سیاسی مفکر تھا وہ انگلستان کے شہر ویسٹ پورٹ میں 1588ء میں پیدا ہوا ۔ہابس نے 1651میں لیوا تھن کے نام سے ایک شہرہ آفاق کتاب تحریر کی اس کتاب میں ہابس لکھتا ہے کہ ”انسان کو جملہ مخلوقات خداوندی پر اس لیے فضیلت اور برتری حاصل ہے کہ اسے عقل اور فہم کی بیش بہا دولت عطا کی گئی ہے ، لیکن بدقسمتی سے فضول اور بیہودہ بکواس کی عادت انسان کی فطرت میں شامل ہے ، جو اس دولت کو ختم کر دیتی ہے “۔ تھامس ہابس کے نزدیک اگرانسان تلخ بات بھی شیرینی لہجے سے کرئے تووہ تلخ بات مخالف فریق کیلئے قابل قبول بن جاتی ہے اس کے برعکس خوبصورت دلیل کو اگر تلخ لہجے سے بیان کیا جائے تو وہ مخالف فریق کو ضد اور انا کا شکار کردیتی ہے اور وہ مخالفت پر اتر آتا ہے ۔ اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ”اکثر اوقات سچ کڑوا نہیں ہوتا سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے “۔مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کے ”جنگجو“ اپنے موقف کی حقانیت پر اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ جو ان کے نقطہ نظر سے متصادم ہو اس سے شدیدنوع کی بدتمیزی بروئے کار لائی جاتی ہے اور بات گالم گلوچ تک جا پہنچتی ہے ۔ تحریک انصاف کے کارکنان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ اپنے مخالفین کوآڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور گالم گلوچ کرتے ہیں ۔تاہم اب مجھے لگتا ہے دیگر جماعتوں کے کارکنان نے بھی اس اسلوب کو مستعار لے لیا ہے ۔ مسئلہ اب حق اور باطل کا نہیں ، موقف کی صداقت یاخیانت کا نہیں اب یہ بحث اصولوں سے آگے نکل کرانا کی جنگ بن چکی ہے ۔ عمران خا ن کا ہر طرز عمل اور بیان اس لیے قابل گرفت ہے کہ وہ تحریک انصاف سے وابسطہ ہے جبکہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کا ہر اقدام محض اس لیے ہدف تنقید ہے کہ وہ نواز شریف سے مشروط ہے ۔
اس ساری بحث میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی شمولیت اور اضافہ بھی مضحکہ خیز ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے خلاف جماعت اسلامی کے کارکنان نے توپوں کے منہ کھول رکھے ہیں ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی کردار کشی کرنا ،عمران خان کو ہدف تنقید بنانا ان کے خلاف نت نئے بیانات اور استدلال تلاش کرنا ایک ایسا مشغلہ ہے جس سے جماعت اسلامی کے کارکنان محظوظ ہو رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق انتہائی بھلے مانس اور درویش طبع انسان ہیں ۔ وہ کسی کو گالی دے سکتے ہیں اور نہ سخت گفتگو کر سکتے ہیں ۔وہ مخالف کے دل میں اٹھنے والے خیال کا بھی احترام کرتے ہیں اور ایسی بات ہر گز نہیں کہتے جو مخاطب کو ناگوار گزرے ۔ تاہم فہم سے بالا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان نے یہ نیا تعارف کب اور کہاں سے حاصل کر لیا ہے جس میں مخالف کو ماں بہن کی گالیوں سے نوازنا بھی عین اسلام اور اخلاقیات قرار پرپاتا ہے ۔ قصہ ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ سید مودوی کے مخالفین اشتہار چھپوا کر مساجد میں لگا دیا کرتے تھے ۔ ان اشتہاروں میں لغو اور بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ ہوا کرتی تھی ۔کسی نے مولانا مرحوم سے استفسار کیا مولانا آپ ان بیہودہ الزامات کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟۔ مولانا مودودینے جواب دیا ”میں ویسا نہیں ہوں جیسا کہ میرے مخالفین بیان کرتے ہیں لہذا میں مرنے کے بعد اللہ کی عدالت میں ان الزامات کو پیش کروں گا اور کہوں گا کہ اے میرے اللہ اب آپ فیصلہ کر دیں “۔ یہ بانی جماعت اسلامی سید ابولاعلیٰ مودودی کا حسن اخلاق اور ظرف و صبر تھا۔
تحریک انصاف ، مسلم لیگ(ن) ، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان گفتار اور اعمال میں کس قدر راست یا صالح ہیں عام لوگوں کو ان سے زیادہ سروکار نہیں کیونکہ ہمارے ہاں سیاست میں اس نوع کی زبان استعمال کرنا عام سی بات ہے تاہم جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان اس ’‘غلاظت“سے ہمیشہ محفوظ رہے ۔ ماضی کی بات چھوڑیے ، جماعت اسلامی کے کارکنان کو اپنے موجودہ امیر جناب سراج الحق سے کچھ سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟۔ جماعت اسلامی اعلیٰ اقدار اور روایات کی امین ہے لہذا اس کے کارکنان کے قلم یا منہ سے ایسی گفتگو ہر گز نہیں ہونی چاہئے جس سے ان کی تابناک روایات پر سوالیہ نشان ثبت ہوتا ہو ۔ہم اس نبی ﷺ کے ماننے والے ہیں جنہوں نے پتھر کھا کر اور غلیظ اوجڑیاں پھنکوا کربھی دعاؤں سے نوازا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اسی پیغمبر کا نظام پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ پیغمبر اسلام کے حسن اخلاق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ جناب لیاقت بلوچ اور سراج الحق اس بابت توجہ دیناپسند فرمائیں گے ؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.