ملائیشین طیارے ہی کیوں؟

بدھ 31 دسمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

یہ نومبر 2011ء کا واقعہ ہے۔ میں ملائشیاء کے دارلحکومت کوالالمپور سے چائنہ کے شہر بیجنگ جا رہاتھا ۔ہمارا جہاز چھتیس ہزار فٹ کی بلندی سے گزر رہا تھا جب جہاز کے اسپیکروں سے اناونسمٹ ہوئی کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز ہچکولے لے گا لہذا تمام مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں ۔میرے ساتھ ایک چینی لڑکی بیٹھی تھی جس نے مجھ سے استفسار کیا کہ اناونسمنٹ میں کیا کہا گیا ہے ۔

میں نے اسے بتایا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے حفاظتی بیلٹ باندھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔چینی لڑکی جس کا نام” لی“ تھا وہ قدرے پریشان ہو کر بولی ”کیا زیادہ خطرے کی بات ہے؟“۔میں نے عرض کیا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ۔زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جہاز نے ایک دم ہوا میں غوطہ لیا ۔اس عمل نے جہاز میں سوار تمام افراد کی چیخیں نکال دیں ۔

(جاری ہے)

خوف کی یہ کیفیت جاری تھی کہ جہاز نے ایک طرف کو ہچکولا لیا۔

تقریباََ بیس منٹ تک اس سے ملتی جلتی کیفیت جاری رہی ۔اس دوران جہاز میں سوار تمام مسافر اپنی موت پر اطمینان حاصل کر چکے تھے ۔چینی لڑکی نے میرے بازو کو بھینچ رکھا تھا اور رو رہی تھی وہ غالباََ اپنی امی اور ابا کا زکرکر رہی تھی ۔اسی طرح باقی مسافر پھیپھڑوں سے نکلنے والی آکسیجن کو زندگی کی آخری سانسیں تصور کر کے اپنے اپنے رب کے حضور رو دھو رہے تھے۔

میں نے چینی لڑکی سے کہا تمہارا مذہب کیا ہے اس نے مجھے بتایا کہ وہ بد ھ مت ہے۔ میں نے کہا مقدس زکر کرو تمہارے دل کو سکون ملے گا۔“لی“نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ہچکیاں لیتے ہوئے بولی ”میری ماں میری موت کا سن کر مر جائے گی ،وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے ،میں اس کی اکلوتی بیٹی ہوں“۔میں نے اس کا سر تھپکایا اوراسے دعا کرنے کی تلقین کی ۔

خود میرا حال یہ تھا کہ مجھے جہاز کی تباہی کا یقین نہیں تھا ۔میر اگمان تھا کہ جہاز موسمی خرابی کی وجہ سے ڈی ٹریک ضرور ہے تاہم اللہ نے چاہا توہم صحیح سلامت چائنہ کے شہر بیجنگ اتر جائیں گے۔اس وقت مجھے اپنے گمان سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آئی جب میں نے جہاز کے عملے کو مسافروں سے بھی زیادہ پریشان پایا ۔جہاز میں فی میل ائیر ہوسٹس کی بجائے میل سٹاف تھا جو مسافروں کی ضروریات کو پورا کررہا تھا میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا ٹرالی کو پکڑ کر سیٹ پر بیٹھا تھا لیکن جب جہاز ایک طرف کو جھکا تو اس نے خوف کے مارے ٹرالی کو چھوڑ دیا وہ ٹرالی ایک سیٹ سے جا ٹکرائی جس سے اس پر پڑی پانی کی بوتلیں گر گئیں ۔

اس واقعہ نے مجھے شدید پریشان کر دیا ۔تب مجھے لگا کہ اب واقعی ہم کسی مصیبت میں گرفتارہیں ۔کیونکہ اس سے قبل میری تمام توجہ جہاز کے عملے کی جانب تھی میرا خیال تھا کہ اگر جہاز کا عملہ پریشان نہیں ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہمیں بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔مگر اب جبکہ جہاز کا عملہ خود مخبوط الحواسی کا شکار تھا تو میری تمام خوش گمانیاں کافور ہو گئیں ۔

یہ وقت تھا جب میری زندگی کا ماضی میرے ذہن کی پردہ سکرین پر نمودار ہونا شروع ہو گیا۔اپنے گناہ اور نیکیوں کا اعتداد کرنا یقینا دشوار کام ہے تاہم جو حسنہ میرے شعور کی لوح پر تازہ تھیں میں نے انہیں واسطہ بناتے ہوئے رب تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی استغفر طلب کی ۔میں اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس واقع ہوا ہوں میرے بچوں کے معصوم چہرے میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے تھے ۔

میں اپنی میت کو ایک چار پائی پر پڑا محسوس کر رہا تھا ۔میرے دماغ کی اسکرین مجھے دکھا رہی تھی کہ امی جان !میرے ٹکروں میں منقسم جسد کو چوم کر کہہ رہی ہیں ۔ذبیح !تمہیں ابھی نہیں مرنا چاہئے تھا ۔میرے بچے بھی کچھ اسی طرح کی کیفیت کا شکار حیرت میں مبتلا ہیں کہ ان کا باپ انہیں کیوں چھوڑ گیا ہے ۔گھر کے تمام افراد جو میری زات سے متعلق تھے ان کے چہرے میرے نگاہوں میں محو تھے ۔

جہاز کی اس ہولناکی کو بچشم خود دیکھتے ہوئے میں اپنے پیاروں کی شکلیں آخری بار دیکھ رہا تھا ۔اسی اثنا میں چینی لڑکی نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا ”میں ابھی مرنا نہیں چاہتی “۔میں نے اسے کہا کہ وہ آنکھیں بند کر لے ۔تقریباََ پچیس منٹ بعد جہاز کی یہ ہولناکی تھم گئی اور جہاز کے اسپیکروں سے آواز بلند ہوئی کہ اب ہم خیریت سے ہیں اور بحفاظت اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں ۔

قارئین کی معلومات کیلئے عرض کرتا ہوں کہ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے مارچ 2014میں ملائشین ائیر لائین کا طیارہ ایم ایچ 370لاپتہ ہوا تھا ۔ایم ایچ 370کا رابطہ ٹھیک اسی مقام سے منقطع ہوا تھا جس مقام پر ہم زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار رہے تھے ۔
سچی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز ملائیشیا کی نجی کمپنی ائیر ایشیاء کے طیارے کے لاپتہ ہونے کی خبر نے شدید صدمے سے دوچار کیا ہے ۔

اسے اتفاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ مجھے ائیر ایشیاائیر لائین پر متعد د بار سفر کرنے کا موقع ملا ہے ۔ کیونکہ یہ ائیر لائین دوسروں کے مقابلے میں سستی ہے لہذا میں جب بھی پیسیفک ممالک میں جاتا ہوں اسی ائیر لائین کا انتخاب کرتا ہوں ۔ رواں سال مارچ میں ، میں اسی ائیر لائین پر جکارتہ (انڈونیشیاء) سے کوالالمپور ملائیشیا آیا تھا ۔ جہازوں کی تباہی یا گمشدگی کے متعلق جب بھی کوئی خبر سماعتوں سے ٹکراتی ہے فوراََ اپنے مشاہدات اور تجربات زندہ ہو جاتے ہیں ۔

ملائیشیا اس اعتبار سے بدقسمت ملک ثابت ہو اہے کہ سال 2014میں یہ تیسرا طیارہ ہے جو لاپتہ یا تباہ ہوا ہے ۔رواں سال مارچ میں کوالالمپور سے بیجنگ جانے والا ملائیشین ایئرلائن کا طیارہ ایم ایچ 370 دوسو انتالیس مسافروں سمیت پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا تھا لاکھوں کوششوں کے باوجود طیارے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔اب آکے خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ اس بدقسمت طیارے کو امریکہ نے مار گرایا تھا ۔

فرانسیسی ایئرلائن کے سابق سربراہ اور مصنف مارک ڈوگین نے رواں ماہ دسمبر میں یہ دعوی کیا ہے کہ بحر ہند میں تعینات امریکی نیوی کو شبہ تھا کہ ملائشین طیارے کو ہائی جیک کرکے نائن الیون طرز کے حملے میں استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے باعث امریکی نیوی کی جانب سے طیارے کو ڈیگو گارشیا جزیرے کے قریب حملہ کرکے گرا دیا گیا۔اسی طرح جولائی 2014میں ملائیشین ایئر لائن کا مسافر طیارہ بوئینگ 777 مشرقی یوکرین میں گر کر تباہ ہو گیاتھا ۔

یہ بدقسمت طیارہ ہالینڈ کے دارلحکومت ایمسٹرڈم سے کوالالمپور جا رہا تھا۔اس حادثے میں295 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد ازاں معلوم ہو اکہ بوئنگ 777 طیارہ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوا بلکہ اسے یوکرائین کے علاقہ میں راکٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔راقم نے جہاز کی تباہی کے بدلے میں ملنے والی موت کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ میں لاپتہ یا تباہ ہو جانے والے جہازوں کے مسافروں کی آخری کیفیات کو محسوس کر سکتا ہوں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملائیشین حکام سنجیدگی سے اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دیں کہ آیا ملائیشین ائیر لائین کے طیاروں کو ہی کیوں تباہی یا گمشدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :