صحافی عزیز میمن کا قتل

پیر 9 مارچ 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

وطن عزیز میں اے روز افسوسناک خبریں  سننے کو ملتی ہیں ۔کیہں خوشی کہیں غم یہی کچھ کارخانہ قدرت میں ہو رہا ہے ۔تاہم بعض چیزیں اوربعض واقعات عام انسانوں کےلیے چیلنج ہوتے ہیں ۔کائنات میں بڑے بڑے واقعات وحادثات رونما ہو جاتے انہیں رونما ہونے سے روکانا شاید عام ادمی کے بس بات تو نہیں  تاہم اس کے بعد معا شرے کے ہر انسان کا امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ اس پر اپنی بساط کے مطابق کیا ردعمل دیتا ہے ۔

صحافی عزیز میمن شہید  نے معاشرے کے سامنے حقیقی تصویر پیش کرنے کی جسارت کی تو اسےپہلے  قتل کی دہمکیاں دی گئیں اور پھر بےدردی سے قتل کر دیا گیا  ۔دہمکیاں دینے والے یقینا طاقتور اور با اثر تھے اس کے پیش نظر عزیز میمن نے خطرات کو بھانپتے ہوے پہلے اپنے علاقے پھر اسلام اباد مرکز تک اپنی فریاد پیش کی مگر کسی نے بھی اس کی فریاد پر توجہ نہ دی ۔

(جاری ہے)

ایک عرصہ تک اسلام اباد لاہور اور جہاں جہاں تک وہ اپنی بات پہنچا سکتا تھا پہنچای مگر اس شخص کی فریاد پرکسی کے بھی کان پر جوں تک نہ رینگ سکی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے تحفظ کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔کیا وہ شخص اس ملک کا شہری نہیں تھا؟اسے تحفظ کا حق نہیں تھا؟کیا اس نے جس جرم کا ارتکاب کیا وہ جرم ناقابل معافی تھا؟ ۔اگر ناقابل معافی ہی تھا تو کیا اسے تحت ضابطہ کارروای کی بجاے قاتلوں کے رحم وکرم پر محض اس لیے چھوڑ دیا گیا کہ اسکا عبرتناک انجام دیکھ کر ائندہ کوی با اثر افراد کے بارے میں لب کشای نہ کر سکے۔


. ایک زمہ دار اور فرض شناس صحافی کو قتل ہوے کئی روز گزر گئے مگر ابھی تک تحقیقات شروع نہیں ہو سکیں ۔ابھی خبریں ارہی ہیں کہ مقامی سطح تک کوی کمیٹی بنای جارہی ہے  غالب گمان یہی ہے کہ اتنے روز گزرنے کے بعد قائم کی گئی کمیٹی روائتی طور معاملہ پر مٹی ڈالنے کا کام کرے گی
میرا سوال سب سے پہلے حکومت وقت سے ہے کہ ایک شہری جس کو ڈرایادہمکایا گیا اس نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا اس کی مدد کیوں نہیں کی گئی ۔

اس کوتاہی کا زمہ دار کون ہے ۔دوسرا سوال صحافی برادری سے ہے کہ چند حضرات نے چند دن بات کی اس کے بعدلگتا ہے اپ لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ایسا کیوں ہے ۔صافی  براددری کی طرف سے اس بے حسی پر بہت افسوس ہورہا ہے۔
اپ صحافی حضرات اج کے سماج کاایک بڑا طاقتور طبقہ ہیں اور اپ نے بار  ہا اپنی طاقت کا لوہا منایا ہے ۔بعض اوقات بعض معمولی کے ایشوز لے کر بات کہیں سے کہیں پہنچا دی مگر اج اپ کے ایک مخلص محب وطن فرض شناس ساتھی کے رشتہ دار تعاون اور امداد کے لیے اپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اپ شاید کہیں اور دیکھ رہے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔


ضروت اس امر کی ہے کہ معاملہ پر نظر رکھنے کےلیے ایک متحرک اور مضبوط اعصاب والی ایک کونسل تشکیل دی جائے  جو ہر طرح کے دباو کا مقابلہ کرتے ہوے اصل حقائق قوم کے سامنے لا سکے ۔
اس حوالے سے جو کچھ کہا گیا جن لوگوں نے مبینہ طور پر دہمکیاں دی تھیں یا اب بھی مقدمہ پر اثر انداز ہوتے نظر ارہے ہیں ان کے کردار کے علاوہ بعض زمہ دار ترین افراد واشگاف طور کچھ لوگوں پر الزامات عائد کر رہے ہیں ۔

انہی خطوط پر بھی  معاملہ کو اگے لے جایا گیا تو بھی بات واضح ہوجانا مشکل نظر نہیں اتی ۔
نظر یہ ارہا ہے کہ باثر ملزمان ورثا پر نظر انداز ہوکر معاملہ حسب روائیت رفع دفع کروا  لیں گے ۔ بدقسمتی سے ماضی میں ایسے واقعات کے بعد یہی ہوتا رہااور مخلوق خدا ایمان کی تیسری صف میں کھڑا ہونے کی جسارت بھی کرتی نظر نہیں ائی۔
اس حوالے سے مقتول کے ورثا کو اخلاقی مدد یقین دہانی کروای جاے ہمارے ہاں کتنے لوگوں کو سزائیں مل سکیں اور کتنے لوگوں کو انصاف ملا اس سے قطع بظرحالیہ واقع پر مکمل غیر جانبدارانہ انکوائری ہو ۔

بات واضح ہو جانے کے بعد ورثا اگر قاتلوں کو معاف کرتے ہیں تو وہ الگ بات ہے ۔ورثا کو اپنی مرضی سے مقدمہ چلانے یا راضی نامہ اختیار ہے مگر بات سامنے انا بہت ضوری ہے ۔اگر ایسانہ ہوا تو ائندہ صحافی بردری کےلیے سچ کہنا کتنا مشکل ہو جاے گا ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلاواقع نہیں ماضی میں  اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوے مگر جب بھی بات کسی بڑے کے زمہ لگتی نظر ائی معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا ۔

اگر ماضی میں صحافی برداری یک جان ہو کر کسی ایک کو بھی نشان عبرت بنا دیتی تو یہ سلسلہ جاری نہ رہتا ۔یہاں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جن لوگوں سے مقتول نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوے مدد کی اپیل کی  تھی انہوں نے اس پر کیوں کان نہیں دھرے اس معا ملہ کے زمہ داروں کی نشاندہی بھی ہو اور مقتول کے ابائی علاقہ سے اسلام اباد تک  اس کوتاہی کے مرتکب افراد سے باز پرس ہو ۔ اگر ماضی کی طرح اس واقع پر بھی کسی کو زمہ دار ٹھراے بغیر فائل داخل دفتر کردی گئی تو بحثیت مجموعی صحافی برادری کےلیے لمحہ فکریہ ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :