امریکہ نے بغیر دلیل اور ثبوت کے افغانستان پر حملہ کیا اسامہ بن لادن کی طرف سے گیارہ ستمبر کے حملہ آوروں سے ہمدردی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خود ملوث تھا ، طالبان نے اسامہ بن لادن کو کسی ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی تھی اب وہ آزاد ہے ، افغانستا ن پر امریکی حملے کی پانچ سال پورے ہونے پر طالبان ترجمان کا انٹرویو

ہفتہ 7 اکتوبر 2006 15:12

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین07اکتوبر2006) طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر بغیر کسی جواز اور دلیل کے حملہ کیا تھا ، 11ستمبر کو حملے کرنے والے خود حملے میں جاں بحق ہوئے تھے اور ان کے علاوہ کسی کو بھی ان حملوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اسامہ بن لادن کی جانب سے حملہ کی حمایت اور حملہ کرنے والوں کی تعریف اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ حملہ اس نے کرایا تھا۔

یہ باتیں طالبان کے مرکزی سیاسی ترجمان عبد الحئی مطمئن نے افغانستان میں نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ ٹیلی فون پر ” این این آئی “ سے خصوصی انٹرویو میں کہیں انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی میں امریکہ کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہر عرب مسلمان ظاہرا ً و باطناً امریکہ کے فیصلوں کے خلاف ہے اور ہو سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے ان لوگوں کے مقاصد کی حمایت کی ہو لیکن اس حمایت کی بنیاد پر اسامہ کو ان حملوں کے ذمہ دار افراد میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔

(جاری ہے)

ہو سکتا ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس حملوں کی تائید کرتے ہوں لیکن اس تائید کی بنیاد پر انہیں اس کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ عبد الحئی مطمئن نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کو افغانستان پر حملے کا جواز بنایا ۔ یہ بغیر ثبوت اور دلیل کے افغانستان پر حملہ تھا جس کے نتیجے میں امریکی اور افغان باشندوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں امریکی حکومت آج بھی اپنے فوجیوں کے تابوت وصول کر ر ہی ہے ۔

عبد الحئی مطمئن نے کہا کہ طالبان کی جدوجہد کا مقصد صرف غیر ملکیوں کو افغانستان سے نکالنا ہے اگر امریکی افغانستان سے نکل جائیں تو یہ افغان اور امریکیوں کیلئے امن کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکہ نے طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کو افغانستان پر حملے کا جواز قرار دیا تھا تو عبد الحئی مطمئن نے کہا کہ شک کی بنیاد پر کسی پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ہر وقت طاقت کے استعما ل کا سہارا لیا ہے امریکہ نے کبھی بھی دلیل سے بات نہیں کی ۔ امریکہ نے طالبان کی حکومت کے خاتمے تک اسامہ بن لادن کے خلا ف کوئی مدلل ثبوت پیش نہیں کرسکے وہ صرف طاقت کی زبان میں بات کرتے اور دھمکیوں پر اتر آئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم تھی اور یہ ان کے لئے نا ممکن تھا کہ امریکہ کی دھمکیوں کو مان لیتی ۔

اس کام کیلئے دلیل اور مکالمے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے حملے کا بہانہ تلاش کیا ۔ یہ مسئلے کا حل نہیں تھا اور نہ اس طریقے سے مسائل کاحل نکالا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ طالبان نے افغان عوام کی خواہشات کے مطاق اسلامی قانون نافد کیا تھا وہاں امن قائم تھا اور افیون کی کاشت مکمل طو ر پر ختم ہوگئی تھی ۔

یہ فیصلے کسی غیر ملکی مداخلت کے لئے جواز نہیں بن سکتے جب ان سے القاعدہ کے سر براہ یا اس تنظیم کے ساتھ تعلقات کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جب طالبان کی حکومت کے دوران افغانستان میں موجود تھے تو وہ کچھ شرائط کی بنیاد پر زندگی گزار رہے تھے ان پر دوسروں کے خلاف کارروائی کرنے کی پابندی تھی ۔ موجودہ طالبان تحریک کا مقصد غیر ملکیوں کو افغانستان سے نکالنا ہے اور اس سلسلے میں ہمارا القاعدہ سے کوئی براہ راست تعلق نہیں وہ اپنا ایک نظام بنائے ہوئے ہیں ۔

طالبان صرف افغانستان تک محدود ہیں اور ہماری لڑائی ملک سے باہر نہیں ہے ۔ ہم ابھی بھی واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم نے کسی کو بھی کسی دوسرے ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی تھی ہم نے اسامہ کو بھی کسی ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی تھی ۔ ہو سکتا ہے کہ 11ستمبر کے حملہ آوروں کے ساتھ اسامہ بن لادن کی ہمدردی ہوسکتی تھی لیکن ان میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔ اگر امریکی افغانستان نہ آتے تو ہم ان کے فوجیوں کے خلاف کبھی نہ لڑتے ہم کبھی بھی امریکہ کے خلاف لڑنے نہیں گئے۔