اگر گیارہ سال بعد بے نظیر بھٹو ہماری پالیسی کو اپنا رہی ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت کو ہم خوش آمدید کہیں گے ،اسلام آباد میں ملنے والے راکٹ روسی ساخت کی ہیں جو کہ افغانستان میں استعمال ہوئے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ راکٹ کہاں سے لائے گئے،افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں ،وفاقی وزیر داخلہ

ہفتہ 7 اکتوبر 2006 22:14

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔7اکتوبر۔2006ء) پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ) کے مرکزی صدر اور وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ملنے والے راکٹ روسی ساخت کی ہیں جو کہ سوویت یونین افغان جہاد کے دوران لائے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ راکٹ کہاں سے لائے گئے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور کے صحافیوں کے اعزاز میں دئے گئے افطار ڈنر کے موقع پر مختلف سوالوں کے جوابات دینے کے دوران کیا اس موقع پر پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سکندر حیات خان شیرپاؤ ایم پی اے ،نسرین خٹک ایم پی اے ،ارشد خان ایم پی اے ،ناظم ضلع ہنگو عنی الرحمان ،ناظم ضلع ملاکنڈ فدا محمد ،اقبال حسین خٹک ،سینٹر حاجی غفران بھی موجود تھے وزیر داخلہ نے کہا کہ رالپنڈی میں راکٹ حملوں میں استعمال ہونے والے ،گزشتہ دو دنوں سے پارلیمنٹ ہاؤس ،ایوان صدر،وزیر اعظم ہاؤس کے قریب اورشاہراہ کشمیر سے ملنے والی راکٹ روسی ساختہ ہیں جو کہ 107ملی میٹر کے ہیں اور یہ افغان جہاد کے دوران سوویت یونین افغانستان لائی تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ راکٹ کہاں سے لائے گئے انہوں نے کہا کہ ابھی تک ان راکٹوں کے لانے کا مقصد سامنے نہیں آیا تاھم میرے ذاتی خیال میں صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کے یورپ، کیوبا اور امریکہ کے کامیاب دورے کے تاثر کو زائل کرنے کی کاروائی لگتی ہے افغانستان کے بارے میں پوچھے گئے مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے نیٹو فورسز کی پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن اور تجارت کے فروغ کے لئے پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں تعمیر نو کے سلسلے میں 250ملیں ڈالر کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اس کے علاوہ ہماری ان سے تجارت ایک ارب 50کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے انہوں نے کہا کہ بعض اوقات غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے جس کی بڑی وجہ افغانستان سے طویل سرحد ہے اور حالات کی وجہ سے جو کچھ ہوتا ہے زیادہ الزام پاکستان پر آتا ہے وزیر داخلہ نے کہا کہ صدر مملکت نے امریکہ میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی جس سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں امن معاہدے کے حوالے سے امریکہ اور افغانستان کے جو خدشات تھے وہ صدر مشرف کی وضاحت کے بعد دور ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت نہیں کررہا ہے بلکہ وہ وہاں امن چاہتا ہے وہاں پر امن پاکستان کے مفاد میں ہے تجارت میں اضافے کے علاوہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے وطن واپس جاسکیں گے اور گیس پائپ لائن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہونگیں ہم کبھی بھی افغانستان میں بدامنی نہیں چاہتے انہوں نے کہا کہ افغان بارڈر پر پاکستان کی 80ہزار افواج موجود ہیں جو کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں اس میں ہم کامیابی حاصل کریں گے اور بارڈر کے آر پار آمد ورفت کو ختم کرسکیں گے اسی طرح کیوبا میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے جنرل مشرف کی ملاقات نہایت اہم تھی جس سے انڈسٹیڈنگ پیدا ہوئی انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا تعلق ہے تو ان کی اندرونی سیاست کی وجہ سے کچھ بیانات آتے رہتے ہیں جلد یہ خدشات بھی دور ہوجائیں گے اور پیس پراسس شروع ہوجائے گابے نظیر بھٹو اور حکومت کے رابطوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر گیارہ سال بعد بے نظیر بھٹو ہماری پالیسی کو اپنا رہی ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت کو ہم خوش آمدید کہیں گے انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں آئندہ انتخابات اور ا سکے بعد بھی اتحاد میں شامل ہونگے اس کے علاوہ انتخابات سے قبل ہر جماعت اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے مقامی سطح پر ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے اتحاد ٹوتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں جو چیز ہمیں سوٹ کرے گی اس کے ساتھ جائیں گے انہوں نے کہا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ہمیشہ ماڈریٹ عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ریڈیکل عناصر کا مقابلہ کرنے کی بات کی ہے اگر کوئی ماڈریٹ ہمارے ساتھ ملنا چاہتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں خود بے نظھیر بھٹو نے بھی رابطوں کا اعتراف کیا ہے اس سے ماضی میں ہماری اختیار کردہ پالیسی درست ثابت ہوتی ہے صدر مشرف کی جانب سے آئی ایس آئی کے سابق جرنیلوں کے طالبان سے رابطوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نائن الیون سے قبل آئی ایس آئی کا جو رول تھا اور پاکستان بھی طالبان کی حمایت کرتا تھا جو ریٹائرڈ تھے ان کا طالبان سے تعلق رہا ہے صدر نے اس تناظر میں بات کی ہے ہم موجودہ افغان حکومت کی حمایت کرتے ہیں ،دہشت گردی کے خلاف ہیں افغانستان میں امن اور اچھے تعلقات چاہتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے قبائل کے گرینڈ جرگوں کی پیش کردہ تجویز کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ابھی سفارتی سطح پر بات چیت ہوگی جس کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا۔

متعلقہ عنوان :