پیپلزپارٹی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے حقائق نامہ جاری کر دیا،قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار وزیر اعظم کو قرار دیاگیا ہے،موجودہ سکینڈل کی رپورٹ اکتوبر 2005ء سے وزیر اعظم کی میز پر ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا، پیپلزپارٹی کے سیکرٹری مالیات ڈاکٹر بابر اعوان کی پریس کانفرنس

منگل 17 اکتوبر 2006 18:02

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین17اکتوبر2006) پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار وزیر اعظم کو قرار دیتے ہوئے اس کے بارے میں حقائق نامہ جاری کر دیا جس میں نیب کی انکوائری رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی میگا کرپشن کا ذمہ دار وزیر اعظم کو قرار دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ رپورٹ اکتوبر 2005ء سے وزیر اعظم کی ٹیبل پر ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو وزیر اعظم، دو وفاقی وزیروں، تین وفاقی سیکرٹریوں اور متعدد مشیروں کو گرفتار کیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار پی پی پی کے سیکرٹری مالیاتی سینیٹر بابر اعوان نے میڈیا سنٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دوران لوگ روٹی کے ساتھ تیل تیل کی بھی پکار کر رہے ہیں تیل کی مصنوعی قیمت بڑھانے پر پیپلزپارٹی حقائق نامہ دے رہی ہے آئل لمیٹڈ کے مطابق 2004-05ء میں ہماری کل ضرورت 16 ملین میٹرک ٹن تھی اس میں سے جو ہمارا اپنا کروڈ آئل 17 فیصد ضرورت پوری کرتا تھا 83 فیصد باقی کروڈ آئل اور پٹرولیم کی مصنوعات کی صورت میں ہم اسے امپورٹ کر رہے تھے اس فراڈ کا آغاز 99ء سے ہوا جب یہ حکومت برسر اقتدار آئی یہ کارپوریٹ فراڈ ہے اس سلسلے میں رپورٹ سینٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے طلب کی مگر رپورٹ ایوان میں پیش نہیں کی گئی تاہم ہم اس رپورٹ کی حقائق اپنے حقائق نامہ کے ساتھ ریلیز کر رہے ہیں رپورٹ بریگیڈیئر جاوید اقبال، ڈائریکٹر آئی جی اینڈ آئی نیب سندھ کراچی پر ایڈریس ہے۔

(جاری ہے)

نیب ڈائریکٹر اسلام آباد اس کا عنوان ہے کہ پٹرولیم کی مصنوعات میں بھاری بھر کم گھپلا اس کی تجویز جو دی گئی ہے اس کے مطابق نیب نے پہلی مرتبہ کہا ہے کہ یہ میگا کرپشن کا مضبوط کیس ہے۔ فراڈ کے ثبوت موجود ہیں اس فراڈ کا آغاز 99ء اور 2001ء میں ہوا پٹرولیم کی مصنوعات کی ڈی ریگولیشن کی گئی اس کی سمری بھجوائی گئی اس کے ذریعے جو نظام 63ء میں بنا تھا کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا مگر اسے تبدیل کر دیا گیا اور تیل کی قیمتوں کا تعین تیل کمپنیوں کے حوالے کر دیا کہ مرضی سے قیمتیں مقرر کرلیں اس پر سب سے زیادہ اعتراپ پلاننگ کمیشن نے کیا تھا اس اعتراض کو حکومت نے مسترد کر کے 28 مارچ 2002ء کو آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی یعنی اوگرا آرڈیننس جاری کر دیا پہلی کڑی یہ ہے پاکستان کی تاریخ کے نااہل اور کرپٹ ترین وزیر اعظم دعویٰ کر رہے ہیں کہ 70 ڈالر فی بیرل ہے یہ غلط اعداد و شمار ہے۔

ویسٹ ٹیکس انٹرمیڈیٹ ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت ہے جس سے ہم نے آج تک تیل یا مصنوعات خریدی ہی نہیں ہیں ہم گلف سے خریدتے ہیں کویت پٹرولیم سے گلف کی قیمت 10 سے 15 ڈالر کم ہے مگر ہم سے 71 ڈالر چارج کیا جا رہا ہے اس کے بعد دوسرا فراڈ یہ کرتے ہیں کہ جون 2002ء میں 6 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی۔ سیکرٹری پٹرولیم نے ای سی سی کیلئے سمری بنائی عبدالرشید فوسی نے جو کبھی منظور نہ ہوئی 6 فیصد ڈیوٹی آج تک قائم ہے جو بلاجواز اور غیر قانونی ہے تیسرا بڑا فراڈ ہے 2000ء تک چار ریفائنریاں جس طرح منافع کما رہی ہیں اس کے عدد پر چیلنج ہے جن میں نیشنل ریفائنری لمیٹڈ، پی آر ایل، اٹک ریفائنری لمیٹڈ اور پارکو ہیں ان کا منافع سالانہ 2000ء کا نیشنل ریفائنری کا 23 ملین سالانہ ہے، پی آر ایل کا 76 ملین، اے آر ایل کا 29 ملین جبکہ پارکو کا 1279 ملین روپے تھا جو اب بڑھ کر بالترتیب 704، 61، 29 سے 727 ملین اور پارکو 1279سے 2361 ملین پر چلا گیا ہے جبکہ 2007ء میں بالترتیب 704 سے 776 پر چلا گیا، 610 سے 824 پر، 727 سے 269 پر واپس آیا جبکہ پارکو 2361 رہا۔

جبکہ 2004ء میں این آر ایل 1243 بلین پر چلا گیا۔ پی آر ایل 734، اے آر ایل 383 اور پارکو 2361 رہا۔ 2005ء میں این آر ایل 2458 ملین پر چلا گیا جبکہ پی آر ایل 1381، اے آر ایل 1285 اور پارکو 8917 ملین پر چلا گیا۔ 2006ء میں این آر ایل 3745 ہے پی آر ایل 2107، اے آر ایل 1426، پارکو 9627 پر چلا گیا۔ این آر ایل کا سالانہ منافع 16182 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پی آر ایل کا 2672 گنا اضافہ، اے آر ایل 4817 فیصد ہوا پارکو نے صرف 652 فیصد منافع کمایا۔

پٹرولیم مصنوعات میں ہائی سپیڈ ڈیزل 0.5 فیصد سلفر کے ساتھ یہ پریمیم پراڈکٹ کہلاتی ہے اس کی پیداوار یہاں نہیں ہے لیکن 2003ء جون سے آئل کمپنیوں نے اسے شروع کیا 0.8 ڈالر سے پریمیم لگانا اب 1.3 ڈالر فی بیرل چارج کر رہے ہیں جون 2003ء سے اکتوبر 2005ء تک ٹیکس لگا کر 21.32 بلین سالانہ کمایا ہے۔ آئل کمپنیوں نے مارکیٹنگ کے ذریعے فی لیٹر 99ء سے 2005ء تک کارمیٹنگ میں 637 فیصد اضافہ کیا۔

ری ٹیلر مارجن میں 90.79 فیصد اضافہ کیا موٹر گیسلوین میں 339 فیصد اور ایم سی میں 478 فیصد ٹوٹل اضافہ 700 فیصد نقل حمل پر کیا ہے۔ فی لیٹر اضافہ اس فراڈ کو پی ٹی ایی کہتے پٹرولیم ڈپلوسیمنٹ لمیٹڈ حالانکہ 2001ء جون سے ایک پیسہ بھی نہیں لگایا ہے مگر سالانہ منافع 11 بلین ہے جو حکومت کی جگہ آئل کمپنیوں کو جاتا ہے ایک اور فراڈ فرنس آئل کا ہے اس میں جو کتاب حکومت پاکستان نے شائع کی ہے پاکستان انرجی بک مین ہے۔

ای سی ای، واپڈا اور او پی آئی ہے جس نے فرنس آئل لینے سے ا نکار کر دیا ہے جبکہ پی ایس او، شیل، کالٹیکس نے اضافہ کیا ہے پی ایس او نے 234 فیصد اضافہ کیا ہے شیل نے 194 فیصد، کالٹیکس نے 251 فیصد اضافہ کیا ہے اب اس کے اوپر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا ہے کہ قیمتیں ڈ غیر حقیقی ہیں کم کریں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ۔ حکومت کا ایک اور کمال ہے نیب کی انکوائری 18 اکتوبر 2005ء سے شوکت عزیز کی میز پر پڑی ہے اس لئے باہر نہیں آ رہی کہ پکڑی جائے گی اس لئے قرضوں نے انکوائری دبا رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک لیٹر پر اضافہ کیا جائے تو کیا ہوتا ہے۔ ڈیزل کی کھپت پاکستان میں 7865000 میٹرک ٹن سالانہ ہے 5 سال کی 9390810000 میٹرک ٹن ہے اگر ایک روپیہ فی لیٹر بڑھائیں تو سالانہ 9.39081 ارب روپے ہیں۔ دوسرا گیسلولین میں 1450000 سالانہ سے شروع ہوتا ہے 1967650000 پانچ سال کا ہے۔ سالانہ ایک روپیہ بڑھے تو 1.96765 بلین بنتا ہے۔ کیروسین آئل کی کھپت میں 1400650000 میٹرک ٹن ہے جبکہ منافع 140065 ہے ان تینوں آئٹم میں ایک روپیہ بڑھانے سے ساڑھے تیرہ ارب روپے سالانہ بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنی انکوائری کی ہے اس انکوائری کو ڈائریکٹر پراجیکٹ اسپلیٹیشن بونی دمیٹ کوسٹل ریفائنری لمیٹڈ نے کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ گیاہر نومبر کو سندھ میں میٹنگ ہوئی تھی اس میں انکوائری کا فیصلہ ہوا سولہ مارچ 2004ء میں پھر فیصلہ کیا تمام اعداد و شمار حاصل کیا تمام اداروں کی تجاویز بھی ہیں اور تجویز کیا کہ بڑا میگا کرپشن کا نہیں ہے شکایت کی تحقیق کے مطابق تمام شکایت کا 30 دن میں ریفرنس بنائیں۔

نیب قومی احتساب ادارے کی جگہ نیب ورک مخالف بینظیر ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری ان کیخلاف نیب انکوائری کرے اس طرح دو وزیر، تین سیکرٹری اور چند مشیر ان کو کھاتے میں ڈالتے ہیں یہ بھی اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو ابھی گرفتار کریں ان لوگوں نے اتنا بڑا ڈاکہ ڈالا ہے ہم برسر اقتدار آ کر ان سب کو گرفتار کریں گے اگر ہم نے نہ کیا تو ہمارا احتساب کیا جائے۔