فاٹا میں 6 ملوں کی بندش‘ سپریم کورٹ کی سیلز ٹیکس کے معاملے کے حل کیلئے اے ڈی آر سے رابطہ کرنیکی ہدایت،کیاوفاقی حکومت فاٹا سے سیلز ٹیکس وصول کرنے کی مجاز ہے؟ ‘ اٹارنی جنرل ،سیلز ٹیکس کیلئے صرف صدر مملکت ہی فیصلہ صادر کر سکتے ہیں ‘ وکلاء کے دلائل

بدھ 8 نومبر 2006 16:20

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین08نومبر2006 ) سپریم کورٹ میں فاٹا کے علاقے پر قائم 9 ملوں میں سے 6 ملوں کی سیلز ٹیکس کی وجہ سے بندش کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کی سماعت گزشتہ روز بھی جاری رہی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سیلز ٹیکس کے معاملے کو حل کرنے کیلئے اے ڈی آر کے پاس جانے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا ہے کہ عدالت اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا حکومت فاٹا سے سیلز ٹیکس وصول کرنے کی مجاز ہے۔

انور ایڈووکیٹ اور عبدالحفیظ پیرزادہ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فاٹا کے علاقے میں قائم صنعت کے حوالے سے سیلز ٹیکس صرف صدر مملکت کے فیصلے کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ مزید سماعت 11 دسمبر 2006ء کو ہو گی۔ گزشتہ روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ جسٹس محمد نواز عباسی اور جسٹس سید سعید اشہد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔

(جاری ہے)

فاٹا میں سیلز ٹیکس کی وجہ سے بند ہونے والی ملوں کی طرف سے مقرر کردہ قانونی مشیروں محمد انور ایڈووکیٹ اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے علاقے میں 9ملز کام کر رہی تھیں لیکن سی بی آر کی طرف سے ہر ماہ 12 کروڑ روپے کے سیلز ٹیکس کی وصولی کی وجہ سے 6 ملز بند ہو گئی ہیں اور سینکڑوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں ۔

آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت شیلز ٹیکس فاٹا میں صرف اس وقت لاگو ہو سکتا ہے جب صدر پاکستان حکم جاری کریں اگر سی بی آر نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ملک کی تمام انڈسٹری آہستہ آہستہ بند ہو جائیں گی۔ اور کچھ بھی باقی نہیں بچے گا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسئلہ اے ڈی آر (انٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزسیلیوشن) کے تحت حل ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اے ڈی آر کا مسئلہ پہلے ہی قبول کر چکا ہے۔

اس پر ملز کے قانون مشیر انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ جناب والا وہ تو پہلے ہی آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اے ڈی آر سی بی آر کے ساتھ میٹنگ کرے اور حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کرے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر تو ہائی کورٹ کی ججمنٹ غیر موثر کرنا پڑے گی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ میرے دلائل انور کے مطابق ہیں یہ آئینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں تو ٹیکس کے طریقہ کار کی بات ہے اگر آج صدر کہہ دیں کہ میں فاٹا کے سیلز ٹیکس بڑھاتا ہوں تب تو ایسا ہو گا ویسے نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں کوئی آئینی نقطہ نہیں ہے۔ اس لئے اس کو غیر موثر کرنا پڑے گا۔ اور ان کو ریوائز کرنا پڑے گا اگر آپ عدالت کی بات تسلیم نہیں کرتے تو پھر عدالت اس کا فیصلہ میرٹ پر کرے گی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان کی اس بارے میں رائے جانی تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ سب کچھ اے ڈی آر نے کرنا ہے۔ ریکارڈ پر موجود درخواستوں کا کوئی ایشو نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا حکومت فاٹا کے علاقے سے سیلز ٹیکس وصول کرنے کی مجاز ہے یا نہیں ۔ اس پر عدالت نے کہا کہ اس کے لئے ہمیں ریگولر بنیادوں پر سننا ہوگا لہذا اس کی مزید سماعت 11 دسمبر 2006ء کوہو گی جس میں اس کے تمام پہلوؤں کو دیکھا جائے گا۔