افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء اور طالبان کو سیاسی عمل میں شریک نہ کئے جانے تک وہاں امن قائم نہیں ہو گا، مولانا فضل الرحمن،سات دسمبر کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں استعفوں کا طریقہ کار طے کیا جائیگا، پختون امن جرگے سے خطاب

پیر 20 نومبر 2006 21:05

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20نومبر۔2006ء) متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل و قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء اور طالبان کو سیاسی عمل میں شریک نہ کئے جانے تک وہاں امن قائم نہیں ہو گا، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان میں جمہوری انداز میں اپنی سیاست کر رہے ہیں، سات دسمبر کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں استعفوں کا طریقہ کار طے کیا جائیگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے این پی کے زیر اہتما م باچا خان مرکز پشاور میں پختون امن جرگے سے خطاب کرتے ہو ئے کیا ۔ جس کی صدارت اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کی ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے اور جرگے کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کیلئے طالبان کے لئے ایسی راہ ہموار کرنی ہو گی جس کے ذریعے وہ اسلحہ ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آ جائیں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ افغانستان کے انتخابی عمل میں طالبان کو شریک کرنے کا موقع دینا ہو گا اگر ان کو اقتدار میں شریک نہ کیا گیا تو افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے قبائلی علاقوں میں اسی ہزار فوج کی تعیناتی کو گندف معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ڈیورنڈ لائن کو ختم کیا جائے تو آر پار پختون ایک ہیں پھر ان کو جدا نہیں کیا جا سکتا جب تک ڈیورنڈ لائن موجود ہے پختون دو حصوں میں تقسیم رہیں گے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن فرنگیوں نے کھینچی ہے اور یہ مسلمانوں کا کام نہیں ۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ صدر مشرف ایک طرف ہمیں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکمران جماعتوں اور اپوزیشن میں شامل اے این پی ،پی پی پی اور مسلم لیگ (ن )کو روشن خیال قرار دے رہے ہیں ۔صدر مشرف کے اس طرز عمل سے جمہوریت کو فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملے گا ۔انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان میں جمہوری انداز میں اپنی سیاست کر رہے ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ پاکستا ن میں قانون کی بالا دستی ہو، فوج کی حکمرانی ختم ہو اور فیصلے عوام پر چھوڑ دیئے جائیں مگر صدر مشرف ہمیں اپنا مد مقابل سمجھتے ہیں بلکہ ہمیں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صدر مشرف جلسوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات میں ووٹ اعتدال پسندوں اور روشن خیالوں کو دیئے جائیں اور شدت پسندوں کو مسترد کیا جائے جس سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے ۔بعد ازاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سات دسمبر کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں استعفوں کا طریقہء کار طے کیا جائیگا۔