جمہوریت کو نقصان کا اندیشہ ہوا تو استعفوں کے فیصلے پرنظرثانی ہوسکتی ہے ،مولانا فضل الرحمن

ہفتہ 2 دسمبر 2006 19:42

ڈیرہ اسماعیل خان(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔2دسمبر۔2006ء) متحدہ مجلس کے سیکرٹری جنرل وقائدحزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے استعفوں سے اگر جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو استعفے دینے کے فیصلے پرنظرثانی کی جائے گی اس پہلو پربھی غور کیاجائے گا کہ استعفے دینے کے بعد اگر حکومت کے ضمنی الیکشن کو روکا گیا تو کیا اس سے خانہ جنگی کاخطرہ تو نہیں ہو گا  کیا حکومت ہمارے استعفوں کے بعد کہیں دوتہائی اکثریت سے حکومت آئین میں بنیادی تبدیلیاں تو نہیں لائے گی اپوزیشن کی بعض جماعتوں میں ڈیرہ پریس کلب کے صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے اس موقع پروزیراعلی سرحد اکرم خان درانی اور ممبر صوبائی اسمبلی مولانا لطف الرحمن بھی موجود تھے قائد حزب اختلاف نے کہاکہ جے یو آئی کی مجلس شوری کا اجلاس چار اور پانچ دسمبر کو اسلام آباد میں طلب کرلیا گیا ہے ہماری جماعت کی شوری جو رائے طے کرے گی وہ رائے متحدہ مجلس عمل کے چھ اور سات دسمبر کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پیش کردی جائے گی متحدہ مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں استعفے دینے کے فیصلے کے متعلق لائحہ عمل تیار کیا جائے گا انہوں نے کہاکہ فوجی قیادت کے فیصلے ملک کو سیکولر ازم کی جانب لے جارہے ہیں مغربی تہذیب کو ہم پر مسلط کیا جارہا ہے دستور پاکستان کو مغربی دنیا کے کہنے پر پامال کیا جارہا ہے پاکستان میں جمہوریت کی شہ رگ پر جنرل مشرف کے ذریعے بش اور اس کے حواری اپنے پنجوں کی گرفت کو مضبوط کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ جنرل مشرف نے اپنی فکر کے مطابق روشن خیالوں اور مذہی لوگوں کے درمیان جو لکیر کھینچ کر دینی جماعتوں کو جو چیلنج دیا ہے ہم نے اسے قبول کیا ہے اور ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے قوم یکسوئی کے ساتھ ہمارا ساتھ دے ہم اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے والوں کو پورا پورا سبق سکھائیں گے انہوں نے کہاکہ جب تک حکومت یا اسمبلی کوئی قانون غور کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو نہ بھیجے اسلامی نظریاتی کونسل از خود کوئی رائے کی قانون  بل کے متعلق نہیں دے سکتی جنرل مشرف سے ملاقات کے دوران نام نہاد حقوق نسواں بل پر اسلامی قراردینے کے اسلامی نظریاتی کونسل کے عہدیداران کا بیان کوئی حیثیت نہیں رکھتا اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی ضرورت موجودہ ممبران کا تعلق جس ملک سے بھی ہے ان کو کسی بھی ملک کے علماء قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اعتماد کرتے ہیں ایسے مذہبی سکالر اسلامی نظریاتی کونسل میں موجود ہیں جو حدیث سے انکار کرتے ہیں ایسے لوگ اسلام کے حوالے سے کسی بات کی کیسے سفارش کرسکتے ہیں