بے نظیر اور نواز شریف کو وطن واپس آنے اور الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ جان محمد جمالی ۔وفاق اور صوبوں کے درمیان خلاء کو ختم کرنے کیلئے مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے اور اگر ملک کو بچانا ہے تو صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم منصفانہ طور پر کی جائے۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے بھیجے جانے والے افسروں کی غلطیوں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے‘ گوادر میں سرمایہ کار یا باہر سے آ کر رہائش اختیار کرنے والے کو ڈومیسائل بنانے یا ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا سیمینار سے خطاب

پیر 11 دسمبر 2006 17:09

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین11دسمبر2006 ) ڈپٹی چیئرمین سینٹ جان محمد جمالی نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان خلاء کو ختم کرنے کیلئے مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے اور اگر ملک کو بچانا ہیہ تو صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہو گا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو وطن واپس آنے کی اجازت دی جانی چاہیے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں اور عوامی نتائج کا سامنا کر سکیں۔

سینٹ کو بااختیار بنایا جائے اوراس کے ارکان کا انتخاب براہ رست الیکشن کے ذریعے ہونا چاہیے۔ چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید کے باعث نہیں بلکہ آباؤ اجداد کی وجہ سے مسلم لیگ میں ہوں۔صدر مشرف سے کھری کھری باتیں کرتا ہوں‘ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے جن افسران کو بھی بھیجا گیا ان کی غلطیوں کی وجہ سے حالات سنورنے کی بجائے خراب ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

گوادر میں کسی بھی سرمایہ کار یا باہر سے آ کر رہائش اختیار کرنے والے کو وہاں پر ووٹ کا حق استعمال کرنے اور ڈومیسائل بنانے کی اجازت نہیں دی جائے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کے روز عالمی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایکشن ایڈ‘ سنگی ‘ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام نیشنل ڈائیلاگ آن بلوچستان مسئلہ کے عنوان پر مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور میں سب سے زیادہ پاکستانی ہوں لیکن اپنے صوبے کی روایات کی تاریخ کو بھول نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد حسین شہید سہروردی کو اگر اس وقت وزیراعظم بنا دیا جاتا تو آج جو مسائل ہیں وہ کبھی بھی نہ ہوتے۔ بلوچستان آج بھی وفاق سے تینوں صوبوں کے ساتھ کی برابری مانگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو چلانا ہے تو صوبوں کے وسائل کی تقسیم منصفانہ انداز میں ہونی چاہیے۔

جبکہ سینٹ کو بھی بااختیار ہونا چاہیے اور اس کے ممبران کو براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہونا چاہیے۔ اس وقت جو نمائندگی سینٹ میں صوبوں کی ہے وہ تھوڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں گر مسلم لیگ میں ہوں تو اپنے آباؤ اجداد کی وجہ سے ہوں ‘ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب بننے سے پہلے ہمارے خاندان کے وکیل تھے اور ہمارا خاندان 1938ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوا تھا اور آج میں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید کی وجہ سے مسلم لیگ میں نہیں ہوں ۔

ہمارے اپنے انتخابی حلقے میں جہاں سے منتخب ہو کر آتے ہیں ہم بلوچستان کے رہائش پذیر لوگوں کے دل بہتہ بڑے ہیں ہم بردشت رکھتے ہیں اور پورے ملک کے لوگوں کو برداشت کا مادہ رکھنا چاہیے۔ بلوچستان کے لوگوں پر دنیاوی حصار نہیں چڑھا ہے وہ کھرے لوگ ہیں لیکن اسلام آباد کا کلچر الگ ہے اور یہاں کے درختوں کو بھی کیڑا کھا گیا ہے۔ ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستانیوں کے اصول الگ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کر کے ٹرتھ اینڈ ری کانسبلیشن(مصالحتی) کمیشن بنایا جائے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔

ہم ملک میں نیلسن منڈیلا جیسا آدمی پیدا نہیں کر سکتے تو ہمیں ایوانوں میں رہتے ہوئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا میدان 2007ء کے انتخابات ہیں جس میں نتائج کا پتہ لگے گا اور میں کہتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو وطن واپس آنے دیا جائے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں اور عوامی نتائج کا سامنا کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت میں موجود متحدہ مجلس عمل کے ممبران اور صوبائی وزراء 40 ارب کے ترقیاتی پروجیکٹس میں سے 33 ارب روپے اپنے علاقوں میں خرچ کر رہے ہیں۔

ملا وزیروں نے اپنے اداروں میں خاکروب بھی حافظ قرآن بھرتی کئے ہیں۔ مولوی چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ اپنے قبضہ میں رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو خود ان کی چیزوں کو سنبھالنے کا حق دیا جائے کیونکہ بلوچستانی سیاسی طور پر بیدار لوگ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں جنرل پرویز مشرف کے سامنے کھری کھری باتیں کرتا ہوں اور وہ بڑے دل کے آدمی ہیں ہماری باتیں سنتے ہیں ۔

میری نظر میں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جن افسران کو بھیجا گیا ان کی غلطیوں کی وجہ سے حالات سنورنے کی بجائے خراب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گٹس اور پورٹس اینڈ شپنگ کی اتھارتی وفاقی سبجیکٹ ہے او رہم نے گوادر میں 20 فیصد شیئرز بھی مانگ لئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ مر جاتے ہیں لیکن ہتھیار نہیں ڈالتے جس کی مثال حال ہی کا واقعہ ہے کہ بوڑھا مر گیا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم گوادر پورٹ میں سرمایہ کاری کو روکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن گوادر میں آ کر آباد ہونے والے لوگوں کو کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ گوادر میں ووٹ کاسٹ کریں یا گوادر کا ڈومیسائل بنائیں۔