سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے پی ایم ڈی سی، چاروں صوبائی سیکرٹریز اور وفاقی سیکرٹری ہیلتھ کو نوٹس جاری کر دیئے

منگل 12 دسمبر 2006 17:48

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین12دسمبر2006 ) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ سرکاری ملازمت میں ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے پورے ملک میں یکساں پالیسی اب تک کیوں نہیں بنائی جاسکی ہے جبکہ چکوال کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے ہلاک ہونے والے تین بچوں کے حوالے سے درخواستیں نمٹتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو ملزمان کے خلاف میرٹ پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خادم حسین پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کیا جاچکاہے ملزمان کے خلاف تین مختلف ایف آئی آر ہیں حمزہ علی‘ نعمان اور مبین بشریٰ کی ہلاکت کے حوالے سے درج کی جاچکی ہیں قانون کا عمل شروع ہوچکا ہے ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کئے جاچکے ہیں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کا تبادلہ کردیا گیا ہے اور ان جگہ دوسرے ضلعوں کے ڈاکٹروں نے کام سنبھال لیا ہے ملزمان کے خلاف مقدمات کے اندراج کے بعد اب مزید ان درخواستیں کی سماعت ضروری نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے پنجاب حکومت رولز پر ابھی بحث ہونا باقی ہے ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت کے ساتھ یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ مریضوں سے پوچھیں کہ کیا وہ سرکاری خرچ پر علاج کرانا چاہتے ہیں یا پرائیویٹ طور پر آئین کے مطابق حکومت پنجاب ایسا آرڈیننس نہیں جاری کرسکتی جو لوگوں کو صحت کی سہولت سے محروم کردے انہوں نے کہا کہ اس طرح سے دوسرے سرکاری ملازم بھی جن پر ملازمت کے دوران کوئی نفع بخش کام کرنے کی پابندی ہے ایسا کرنے کیا جازت چاہیں گے اس پر جسٹس سید سعید اشہد نے کہا کہ جب وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اس دوران ہائی کورٹ کے کچھ جج میرے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان کو عدلیہ کی ملازمت کے ساتھ ساتھ شام کے وقت پرائیویٹ چیمبر پریکٹس کی اجازت دی جائے کیونکہ فوجی ڈاکٹروں کو بھی فوجی ہسپتالوں میں ایسی چیمبر پریکٹس کی اجازت ہے حالانکہ وہ فوج کے باقاعدہ ملازم بھی ہوتے ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دینے سے ان غریبوں کا کیا بنے گا جن کے پاس پرچی کٹوانے کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا ڈاکٹروں کا پیشہ انتہائی اہم پیشہ ہے مگر جس سوسائٹی کا ہم بھی حصہ ہیں اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ غریب مریض کے مقابلے میں پرائیویٹ مالدار مریض کو زیادہ توجہ ملتی ہے ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ وفاقی سیکرٹری ہیلتھ کو اس کارروائی کا حصہ بنائیں کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے کا نہیں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صحت عامہ کا مسئلہ انتہائی اہم ہے اس لئے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ اس مسئلے کا حل نکالنا چہتی ہے لہذا سیکرٹری پی ایم ڈی سی چاروں صوبائی ہیلتھ سیکرٹریز رپورٹس داخل کریں اور بتائیں کہ ان کے ہاں پرائیویٹ پریکٹس کا کیا طریقہ کار ہے جس کی روشنی میں ہم یہ بھی کہیں گے کہ اگر سرکاری ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرنا چاہے تو وہ غریب مریضوں کو ترجیح دے ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ جناب والا سرکاری نوکری کے حوالے سے تمام محکمہ جات میں کوئی تفریق نہیں ہے لہذا باقی ملازمین کا مسئلہ بھی اہم ہے عدالت نے کہا کہ اس پر مفصل بحث کی ضرورت ہے عدالت نے وفاقی سیکرٹری صحت سیکرٹری پی ایم ڈی سی اور چاروں صوبائی سیکرٹریوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مذید سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔

متعلقہ عنوان :