پولیس نظام مذاق بن گیا۔ پاکستانی جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں بن گئی ہیں۔ چیف جسٹس،پولیس تفتیش کے بجائے متاثرہ افراد کو تنگ کرتی ہیں۔ اب پولیس یونیفارم کے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں

بدھ 13 دسمبر 2006 16:20

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین13دسمبر2006 ) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پولیس کا نظام مذاق بن کر رہ گیا ہے‘ پاکستانی جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں بن گئی ہیں ‘ پولیس تفتیش کے بجائے متاثرہ افراد کو تنگ کرتی ہے‘ اب پولیس یونیفارم کے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں‘ ایکسائز افسران بازیاب نہ ہوئے تو ذمہ دار ایس پیز ہوں گے۔

(جاری ہے)

یہ ریمارکس چیف جسٹس نے بدھ کے روز یکی گیٹ لاہور سے اغواء ہونے والے ایکسائز افسران ندیم جعفری اور خالد اقبال کے اغواء کے حوالے سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران ادا کئے ایس پی تفتیشی بابر اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خادم حسین قیصر کے علاوہ مغویان کی بیویاں اور ملزم آصف کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اے اے جی پنجاب خادم حسین نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملزم عامر جمیل کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ہے ایس پی بابر نے کہا کہ جناب والا پہلے ملزم کی شناختی پریڈ ہونا ضروری تھی اسی لئے اب تک مزید کارروائی نہیں ہوسکی ہے اس پر چیف جسٹس نے انتہائی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مغویان کو برآمد تو کراؤ پھر شناخت بھی کرتے رہنا رینک افسر اور پی ایس پی آفیسر میں یہی تو ایک فرق ہے وہ ریکوری پہلے کرتا شناخت بعد میں کرتا آپ کا مقصد ملزمان کو رہا کرنا ہے آپ نے مذاق بنایا ہوا ہے ایس پی نے مزید کہا کہ ملزم عامر نے خود ہی دونوں افسران کو ٹیلی فون کے ذریعے بلایا تھا اور بعد ازاں انہیں اغواء کرلیا گیا کیونکہ ملزمان سے انسپکٹر ندیم جعفری اور اے ایس آئی خالد اقبال نے دس ڈرم الکوحل کے برآمد کئے تھے یہ واقعہ 9جون کو ہوا اور 29 جون 2006ء کو انہیں اغواء کرلیا گیا ہم ٹیلی فون کی سم کے ذریعے مزید حالات کا پتہ لگا رہے ہیں عدالت عظمیٰ نے پولیس تفتیش کو انتہائی غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ 20دسمبر تک مغویان کو برآمد کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔