”قرض اتارو ملک سنوارو“ کی رقم کہاں ہے؟ بیت المال کے پیسے سیاسی ضررت مندوں پر خرچ کر دئیے گئے ۔ چیف جسٹس، دیت کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ دیت قوانین میں ترمیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے

بدھ 13 دسمبر 2006 16:23

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین13دسمبر2006 ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دیت کے حوالے سے حکومت پنجاب کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سے پوچھیں گے کہ ”قرض اتارو ملک سنوارو“ سکیم کے تحت ملک اور بیرون ملک سے جمع کی گئی رقوم کہاں گئی ہیں ‘ کوئی احتساب نہیں ہے کبھی بھی ان سکیموں کا آڈٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی اس کا تذکرہ اخباروں میں آیا ہے۔

بیت المال کے کروڑوں روپے سیاسی ضرورت مندوں پرخرچ کر دئیے گے اگر حکومتوں نے اس طرح کے تماشے جاری رکھے تو اس ملک کا کیا بنے گا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ان کاموں کے حوالے سے تو قانون سازی چشم زدن میں کر لیتی ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور جن کی قانون سازی ہونی چاہیے وہ سالہا سال سے ویسے ہی فائلوں میں پڑی ہوئی ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ ملک کی اعلیٰ عدالتیں کئی سالوں سے دیت کے قوانین میں ترامیم کاکہہ رہی ہیں ۔ حکومت لوگوں کے حال پر رحم کھائے ۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز جیل میں 3 سال سے قید دیت کے مقدمے میں سماعت کے دوران ادا کئے۔ سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘ جسٹس جواید اقبال ‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر ‘ جسٹس شاکر اللہ جان اور جسٹس سید سعید اشہد پرمشتمل 5 رکن لارجر بنچ نے کی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب محمد حنیف کھٹانہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ پیش ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری پنجاب سے جواب طلب کیا ہے کہ 1998ء میں دیت کے حوالے سے دئیے گئے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات پر ابھی تک عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ 1999ء سے دیت قوانین میں اب تک ترامیم ہی نہیں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفتاب حسین کھٹانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بیت المال وہ ادارہ ہے جس کا مقصد ضرورت مندوں کو مدد فراہم کرنا ہے جولوگ دیت کی رقم ادا نہیں کر سکتے ان کی دیت کی رقم حکومت ادا کرتی ہے۔ جو مختلف مدات میں حکومت لوگوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کرتی ہے حکومت ایسے سخص کو جو دیت کی رقم ادا کرنے سے قاصر ہے اسے رہا کر کے کسی ایسے پروجیکٹ میں ملازمت دے جو عوامی مقاصد کے لئے قائم کیا گیاہو ۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پاکستان پینل کوڈ 331 کے تحت یہ بھی دیکھتا ہے کہ آیا جیل میں قید شخص قسطوں میں رقم ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ دیت کا ذکر قرآن مجید میں 2مقامات پر آیا ہے ۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر 175 اور سورة توبہ میں دیت کا ذکر تو کیا گیا ہے تاہم دیت کے حوالے سے نہ تو کسی پیریڈ کا ذکر کیا گیا ہے او رنہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ یہ رقم ملزم سے وصول کی جائے گی۔

محمد اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے کہا کہ دیت کے حوالے سے قرآن و سنت میں کوئی بات واضح نہیں ہے البتہ حضرت عمر نے دیت کی رقم ادا کرنے کے لئے 3 سال کا عرصہ مقرر فرمایا تھا۔ اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ستمبر 1999ء میں دیتکی رقم 1لاکھ 70ہزار روپے تھی اب لوگوں کے پاس نوکریاں کہاں ہیں جو وہ اس طرح کی رقم ادا کرتے پھر یں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ رسول اللہ نے خود دوسروں کی دیت کی رقم ادا کی ہے یا کسی صاحب حیثیت سے ادا کرا دی ہے یہ کسی مفتی یا فقیہہ کی بات نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بات ہے۔

چیف جسٹس نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم کے لےئے 3سال کا عرصہ بہت کم ہے اس میں وہ رقم نہیں ادا کر سکتا کیونکہ جیل کاٹنے والوں کو نوکری کون دے گا۔ اور کون گھر میں گھسنے دے گا مزدور ماہانہ 5 ہزار روپے بھی نہیں کما سکتا کبھی روزی ملتی ہے او رکبھی نہیں بھی ملتی۔ اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے کہا کہ دیت کی رقم اور عرصے کو حالات کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے حضرت عمرنے خود حالات کے مطابق فیصلے کئے تھے جنہیں اولیات عمر کہا جاتا ہے ۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اجتہاد کا راستہ ویسے بھی پتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اے اے جی پنجاب آفتاب نے کہا کہ اگر کوئی شخص ذہنی طور پر ناکارہ ہو جائے اور پاگل ہو جائے ان حالات میں اس کے دیت کی رقم نہیں لی جائے گی ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت نے پوچھا کہ اس سلسلے میں کوئی قانون بنایا گیا ہے یا نہیں ۔ اس حوالے سے اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہاس کا فارمیٹ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا گیا تھا جس کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جی پی فنڈ کی طرح ملزم کو بھی موقع دیا جائے۔ کہ اس کو جیل میں کوئی ملازمت دی جائے اور اس ملازمت کے جمع شدہ رقم دیت کے طور پر دی جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب جیلوں میں قائم انڈسٹری بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب تو جیلوں میں بھی ایک مافیا چھا چکا ہے جو ملزمان کے خاندانوں کی کفالت کر کے ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ مچھ جیل کے قیدی جیل سے باہر جا کر فارموں پرکام کرتے رہے ہیں ۔

جیل میں روزانہ ایک قیدی پر ساڑھے پندرہ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جو کسی بھی شخص سے صحیح نہیں ہے اس سے کھانا بھی نہیں بنتا۔ اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے عدالت میں تجویز پیش کی کہ حکومت ان لوگوں کیلئے پراپر فورم تشکیل دے جو روزوں ‘ وضو اور اس طرح کے دوسرے کفاروں کی رقمیں جمع کرانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ قرآن مجید میں 5 مقامات پر اللہ تعالیٰ نے غلاموں او رقیدیوں پر خرچ کرنے کی تلقین کی ہے۔

حکومت اگر پرائیویٹ فنڈ قائم کر دے تو لوگ تو رقم دینا چاہتے ہیں اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جناب والا اس کے لئے تو ایمانداری اور احتساب شرط ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کسی ملزم کی فائنل سزا کا اعلان ہو جائے تو اسے جیل سے باہر کسی جگہ کام کرنے کی اجازت دے کر وہاں اس کی مزدوری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسلم خاکی نے کہا کہ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب قتل کے ملزمان نہ ہوں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ملزم اپنی اپیلوں پر رقم خرچ کرے گا یا دیت کی رقم ادا کرے گا اور جس کا اس نے قتل کیا ہے ان کو ریلیف دینا بھی بہت ضروری ہے۔

اسلم خاکی نے کہا کہ جناب والا یہ توصورت تو قتل خطا میں ہوتی ہے اور قتل عمد میں دیت کی رقم ہی نہیں ادا کی جاتی۔ جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ اگر کسی نے ملزم نے دیت کی رقم دینی ہے تو اسے 3 سال جیل میں رکھنا ضروری نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قتل بے سبب میں بھی ملزم کو رہا کر دیا جاتا ہے جسٹس شاکر اللہ جان نے اس سلسلے میں کہا کہ اس کے دو طریقے ہیں جو شخص رقم ادا نہیں کر سکتا اسے جیل میں رکھا جائے یا پھر رہا کر دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو کہیں گے کہ 3 سال کی بجائے عرصہ 10 کر دے ۔ محمد حنیف کھٹانہ نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص دیت کی رقم نہیں ادا کر سکتا تو اسے اس کی زمین کی ضمانت پر رہا کر دیا جائے اور جب تک وہ رقم ادا نہیں کرتا زمین کی ملکیت اسے نہ دی جائے۔ پاکستان پینل کوڈ کی بہت سی شقیں اسلام کی روح کے منافی ہیں ۔ اسلام گناہ اور جرم سے نفرت کرتا ہے جبکہ ملزم اور گناہگار سے نفرت کرنے کا درس نہیں دیتا۔

1994ء میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں ایک ایسے شخص کے بارے میں فیصلہ دیا تھا جو دیت کی رقم ادا نہیں کر سکتا تھا اور نہ ی اس کے پاس کوئی اور ذریعہ تھا اس کو مزید سزا دینا عدالت نے انسانی عظمت اور وقار کے منافی قرار دیا تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ ملزم کا نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ اس شخص اور خاندان کا بھی ہے جس کا قتل ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ مقتول کے اہل خانہ بہت غڑیب ہوں اور دیت کی رقم سے ان کی گزر اوقات ممکن ہو کیا زکوةٰ اور بیت المال کی رقم کے حوالے سے آپ کو پہلے ہی پتہ ہے کہ یہ رقم سیاسی ضرورت مندوں کو دی جاتی رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جب سارے کام سپریم کورٹ نے کرنے ہیں تو باقی کیا بات رہ جاتی ہے انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب محمد حنیف کھٹانہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ سے کہا کہ جاؤ اور چیف سیکرٹری سے اس سلسلے میں کوئی ہدایت لے کر آؤ کہ انہوں نے 1998ء کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کیا ہے یا نہیں ۔ اگر انہوں نے جواب نہ دیا تو ہم درخواست خارج کر دیں گے۔ سماعت جاری تھی کہ وقت ختم ہو جانے پر سماعت ملتوی کر دی گئی۔