شرعی عدالت کو قرآن و سنت کیخلاف بنائے گئے قوانین پر از خود کارروائی کا اختیار حاصل ہے، حاذق الخیری،نسواں بل کیخلاف درخواست دی گئی تو اس کا بھی جائزہ لیں گے، شرعی عدالت میں 4ہزار اور ماتحت عدالتوں میں 17 ہزار حدود کے مقدمات زیر التواء ہیں، وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی صحافیوں سے گفتگو

پیر 8 جنوری 2007 16:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8جنوری۔2007ء) وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس پروفیسر حاذق الخیری نے کہا ہے کہ شرعی عدالت کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قرآن و سنت سے متصادم قوانین کے خلاف از خود کارروائی کا اختیار حاصل ہے، تحفظ حقوق نسواں بل کے خلاف درخواست دائر کی گئی تو اس کا بھی جائزہ لیں گے، شرعی عدالت میں چار ہزار جبکہ ماتحت عدالتوں میں سترہ ہزار حدود کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے ان خیالات کا اظہار سوموار کے روز دو نئے ججز کی حلف کی تقریب کے دوران صحافیوں سے اپنی خصوصی گفتگو کے دوران کیا تقریب وفاقی شرعی عدالت میں ہوئی جسٹس محمد ظفر یاسین اور جسٹس صلاح الدین مرزا نے نئے ججز کا حلف لیا ان سے یہ حلف وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے لیا تقریب میں ججز اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت ایک دستوری ادارہ ہے اس کا کام ایسے قوانین کا جائزہ لینا ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہیں انہوں نے کہا کہ دو نئے ججز کی تعیناتی سے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے میں مدد ملے گی تاہم اتنی زیادہ تعداد میں مقدمت ہونے کی وجہ سے ججز کی تعداد پوری کی جائے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے بعض شقوں کو تبدیل یا ترمیم کرنے کے حوالے سے شرعی عدالت اپنے فیصلے کے بعد حکومتی اقدامات کا جائزہ لے گی انہوں نے مزید کہ اکہ ابھی بھی شرعی عدالت میں چار ہزار سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں علاوہ ازیں ماتحت عدالتوں میں سترہ ہزار سے زائد حدود کے مقدمات زیر سماعت ہیں جو ججز کی کم تعداد کی وجہ سے ابھی تک التواء کا شکار ہیں انہوں نے دو نئے ججز کی تعیناتی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

متعلقہ عنوان :