پولیس کی کارکردگی پر اظہار عدم اطمینان‘ ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے ۔چیف جسٹس

پولیس کا رویہ ناقابل برداشت ہے‘ وہ جان بوجھ کر غفلت اور سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے ‘ کوئی بھی ملک میں امن و امان کی صورت حال سے مطمئن نہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس۔پنجاب پولیس کو کریک ڈاؤن کر کے 16 مارچ تک 45 خطرناک گینگز کو گرفتار کرنے کا حکم ۔سابق آئی جی پنجاب ضیاء الحسن کو بھی وضاحت کیلئے طلب کر لیا

جمعہ 12 جنوری 2007 17:11

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین12جنوری2007 ) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ملک بھر میں امن و امان کی صورت حال اور پولیس کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے ‘ پولیس کا ناقص رویہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ سابقہ آئی جی پنجاب نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کر چکے ہیں کہ پنجاب بھر میں 45 خطرناک گینگ امن و امان کو تہہ و بالا کر رہے ہیں اور انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

صدر پاکستان نے بھی صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے پولیس چاہے تو کہیں بھی کوئی جرم نہیں پنپ سکتا مگر وہ جان بوجھ کر سستی اور غفلت کا مظاہرہ کر تے ہیں امن و امان کے حوالے سے ملک کا کوئی شخص بھی مطمئن نہیں ہے ‘ نئے آئی جی پنجاب 8 ہفتوں کے اندر خطرناک مجرمان کو گرفتار کریں۔

(جاری ہے)

ڈی آئی جی اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی محفوظ نہیں ہیں تو اور کوئی محفوظ کیا ہو گا۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں لاہور کے رہائشی محمد اکرم کی درخواست پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ادا کئے۔ سپریم کورٹ نے سابق آئی جی پنجاب میجر (ر) ضیاء الحسن کو بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ خود آ کر سپریم کورٹ میں وضاحت کریں کہ انہوں نے مکمل رپورٹ کیوں نہیں ارسال کی اور خود عدالت میں حاضر کیوں نہیں ہوئے۔ اگلی تاریخ سماعت پر خود حاضر ہو کر ہر ایک مقدمے کی تفصیلی رپورٹ دیں ان کی ارسال کردہ رپورٹ اطمینان بخش نہیں ہے۔

جبکہ چیف جسٹس نے 45 خطرناک گینگ گرفتار کرنے کے لئے پنجاب کو 16مارچ کی ڈیڈ لائن دی ‘ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے آئی جی پنجاب احمد نسیم کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام خطرناک قسم کے مجرموں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں ۔ عدالت ان کی بھرپور معاونت اور سرپرستی کرے گی۔ اقدامات میں حائل ہونے والے سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں اور اگر کوئی رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے بارے میں سپریم کورٹ کو بتائیں ۔

انہوں نے آئی جی پنجاب کو مزید ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ان پولیس افسران کے نام اگلی تاریخ سماعت پر بتائے جائیں جنہوں نے اسلم بسہ گینگ اور دوسرے مبین بٹ گینگ کو گرفتار کیا ہے تاکہ انہیں شاباش دی جا سکے۔ انہوں نے آئی جی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صرف انہی لوگوں کو کریڈٹ دیا جائے جنہوں نے کام کیا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ کام کوئی کرتا ہے اور کریڈٹ کسی اور کو ملتا ہے۔

ایسی چیزوں کو روکیں اچھے کام کرنے والوں کی کارکردگی کو ان کے ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔ مزید سماعت 16مارچ 2007ء کو ہو گی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خادم حسین قیصر نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 21 دسمبر 2006ء کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر آئی جی پنجاب نے سی سی پی او لاہور خواجہ خالد فاروق ‘ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور ‘ ڈی آئی جی آپریشن لاہور سے میٹنگ کی اور دو ٹیمیں بنائی گئیں ۔

محمد اعظم جوئیہ ایس پی ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور کی سرکردگی میں ٹیموں نے کام کیا اور اسلم بسہ گینگ اور 13 ساتھیوں کو گجر پورہ لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔ گینگ میں عثمان بٹ ‘ محمد شہباز ‘ مشتاق احمد ‘ شہباز علی ‘ تنویر علی ‘ غلام عباس ‘ لیاقت علی ‘ محبوب شہباز ‘محمد رضوان ‘ مظفر ‘ عثمان ‘ رمضان اور محمد نصیر شامل ہیں ۔ بسہ گینگ کے قبضے سے 2 کلاشنکوف ‘ رائفل ‘ دو میگزین ‘ میگزمینا 72 گولیاں ایک عدد‘ لارج مشین گن ایک عدد ‘ میگزین مشین گن ایک عدد ‘ پسٹل 30بور ایک عدد ‘ سائلنسر کلاشنکوف ایک عدد ‘ 45 بور اوزی گن ‘ میگزین 7 عدد ‘ ہینڈ گرنیڈ دو عدد ‘ کلاشنکوف کی 115 گولیاں ‘ پٹہ مشین گن 5 عدد ‘ پسٹل 30 بور 5 عدد پسٹل 30 بور کی 30 عدد گولیاں ‘ 4 موبائل فون اور 1 لاکھ 85 ہزار روپے کیش برآمد کیا ہے ۔

اسلم بسہ 11 مقدمات میں مطلوب تھا۔ اس کے علاوہ مبین بٹ ڈکیت سمیت 8 ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کل 182 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں 62مقدمات کے حوالے سے جوابات سپریم کورٹ میں ارسال کئے جا چکے ہیں اور 6مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جن مقدمات میں کامیابی کا امکان ہے ان کی تعداد 19 ہے۔

جبکہ 76 مقدمات میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے اور 19مقدمات کی شکایات کا ابھی تک مختلف تھانوں سے جواب موصول نہیں ہو اہے۔ 29 مقدمات اغواء کے ہیں جن میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ کامیابی کیلئے کوششیں جاری ہیں ۔ رپورٹ سماعت کرنے کے بعد چیف جسٹس نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا ظہار کیا اور آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ پولیس اس طرح کے خطرناک مجرموں کو گرفتار کیوں نہیں کرتی ۔

امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے ۔ ڈی آئی جی پر فائرنگ ہوئی ‘ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو قتل کر دیا گیا اگر ملزمان کو گرفتار کیا جاتا تو یہ قتل نہ ہوتا ۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ سمیت ہر ضلع میں ہیومن رائٹس سیل قائم کر دیا ہے تاکہ عدالت کے احکامات کی تعمیل کی جا سکے۔ تاہم سپریم کورٹ پر بھی مطمئن نہ ہو سکی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سابق آئی جی کی کارکردگی اور رویے پرافسوس کا اظہار کیا او رکہا کہ انہوں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کے قیام میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور آج خود عدالت میں آنے کی بجائے رپورٹ بھجوا دی ہے تو اس پر اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ انہیں پولیس اکیڈمی لاہور بھیج دیا گیا ہے تاہم چیف جسٹس نے نئے آئی جی احمد نسیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ کورٹ سے جس طرح کا تعاون مانگیں گے انہیں ملے گا مگر انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگلی تاریخ پیشی پر پنجاب بھر میں کوئی خطرناک گینگ سب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

درخواست گزار کے بھائی نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے حکم لاہور میں بدنام زمانہ اسلم بسہ ڈاکو اجرتی قاتل گرفتار تو ہو گیا اور 15 بے گناہ افراد کو قتل اور 150 سنگین وارداتوں کا اقبال ہو چکا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ 37ملزمان شامل جرم ہیں جو کہ اپنا نیٹ ورک باقاعدہ چلا رہے ہیں ۔ ان میں اس کے دو حقیقی بھائی اکرم چڑی اور اصغر علی جو کہ ایف آئی آر 302 تھانہ کوٹ لکھپت میں مشتاق کو قتل کرنے کے جرم میں مطلوب ہیں جب تک اس گینگ کو مکمل طو رپر گرفتار نہ کیا جائے گا لاہور کے شہری سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے اس کے قریبی ساتھی آصف پٹھان اور خالد میو باقاعدہ کام کر رہے ہیں ان کو فوری گرفتار کیا جائے۔

اسلم بسہ کو مورخہ 6-1-2007ء ماڈل ٹاؤن کچہری لاہور پیش کیا گیا تو وہاں اسلم بسہ کے حامی بھی پہنچ گئے جنہوں نے پولیس افسران کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور ملزم کو چھیننے کی کوشش بھی کی جو کہ پولیس نے ناکام بنا دی۔ جس کی خبر نوائے وقت اخبا رمیں شائع ہو چکی ہے۔ انسپکٹر عابد باکسر مکمل طور پر پشت پناہی کر رہا ہے جناب عالیٰ تمام مدعیان غریب اور نہایت شریف شہری ہیں اسلم بسہ کا گینگ مکمل طور پر جرائم کرنے میں سرکرداں ہے۔

سائل یقین سے کہہ سکتا ہے کہ مدعیان کو مقدمہ کی پیروی سے روکا جائے گا جس کے لئے آپ سے التماس کی جاتی ہے کہ اس کا مقدمہ دہشت گردی ی عدالت میں چلایا جائے اور اسے جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے جس کے لئے مدعیان کو تحفظ فرہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسلحہ لائسنس جاری فرمائیں تاکہ مدعیان خو د بھی اپنی حفاظت کر سکیں۔ درخواست گزار کے بھائی کی طرف سے فراہم کردہ فہرست چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کے حوالے کرنے کو کہا اور آئی جی کو ہدایت کی ہے کہ ان افراد کو تحفظ دیا جائے اور مذکورہ ملزمان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ نئے آئی جی پنجاب کی استدعا پر عدالت نے 45خطرناک گینگ کی گرفتاری کیلئے انہیں 16مارچ 2007ء تک وقت دے دیا ہے۔