کیا ایک مسلمان بچی مغرب زدہ ماحول میں رہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس۔گول مول فیصلہ نہیں کر سکتے ‘ بچی کی خوشی اور فلاح سکاٹ لینڈ اور عدالت عظمیٰ کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ مصباح ارم کیس کی سماعت کے دوران افتخار محمد چوہدری کے ریمارکس

بدھ 17 جنوری 2007 15:57

کیا ایک مسلمان بچی مغرب زدہ ماحول میں رہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس۔گول مول فیصلہ ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین17جنوری2007 ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے مصباح ارم حوالگی کیس میں مصباح اکرم کے والد نے ماں کی طرف سے دستبرداری کی شرائط قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان سولات کا جائزہ لیں اور اس کا جواب عدالت عظمیٰ میں پیش کریں کہ آیا کہ ایک خاتون جو کہ ایک غیر مرد کے ساتھ رہ رہی ہے اور ایک بچے کو بھی جنم دے چکی ہے ایسے حالات میں ایک مسلمان بچی کو اس کے حوالے کیاجا سکتا ہے اور کیا ہائی کورٹ سکاٹ لینڈ اور گارڈین جج کے پاس درخواستوں کے زیر التواء ہونے کے باوجود حبس بے جا کی درخواست کی سماعت کر سکتی ہے یا نہیں ؟ مزید سماعت آج ہوگی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے نزدیک سب سے اہم چیز بچی کی خوشی اور مستقبل کی بہتری ہے ۔

(جاری ہے)

لڑکی کی والدہ اگر مسلمان ہے تو پھر ایک غیر مرد کے ساتھ کس طرح سے رہ رہی ہے اور ایک بچے کو بھی جنم دے چکی ہے خود ہاؤس آف لارڈ بھی ایک فیصلہ دے چکے ہیں کہ بچے کی فلاح و بہبود سب پر مقدم ہے۔ یہ درست ہے کہ بچی کی والدہ بچی سے ملنے اور بات چیت کے حوالے سے تمام حقوق رکھتی ہے تاہم ایک مسلمان بچی کو مغرب زدہ ماحول میں کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بچی کے والد کی درخواست کی سماعت کے دوران ادا کئے۔ بچی کے والد سجاد رانا کے وکیل جسٹس (ر) قیوم ملک ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ لوش اور سجاد احمد کے درمیان شادی 22 جنوری 1986ء میں ہوئی جبکہ طلاق 18اکتوبر 2001ء میں ہوئی ہے ۔ 4 بچے پیدا ہوئے جن میں سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں پہلا بیٹا جس کا نام عمر رانا ہے وہ 7 ستمبر 1986ء کو پیدا ہوا جبکہ دوسرے نمبر پر اس کی بہن تہمینہ ہے جو 18 فروری 1988 ء میں پیدا ہوئی آج کل وہ سکاٹ لینڈ میں ہے اس نے وہاں ایک شخص سے شادی کر لی ہے جبکہ تیسرا بیٹا آدم ہے جو 16 جنوری 1990ء میں پیدا ہوا اور آخری بیٹی ہے جو مصباح ارم ہے جو 16جولائی 1994ء میں پیدا ہوئی۔

2003ء میں پہلی مرتبہ مصباح پاکستان آئیں اور دو مرتبہ ماں سے ملنے سکاٹ لینڈ گئی آخری مرتبہ جون 2005ء میں گئی جس دوران اس کی ماں نے اس کے والد سجاد رانا کے خلاف سکاٹ لینڈ میں بچی کی حوالگی کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا۔ سجاد احمد ررانا نے پاکستا ن واپس آ کر دوسری شادی کر لی ہے۔ سوائے تہمینہ کے تمام بچے والد ہیں قیوم ملک نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتی ہے ایک اور شخص کے ساتھ اپنے سابقہ گھر میں رہ رہی ہے اور ایک بچے کو بھی جنم دے چکی ہے۔

تو کیا کسی مسلمان خاتون کو اس بات کی اسلام اجازت دیتا ہے کہ وہ بغیر شادی کے کسی اور غیر مرد کے ساتھ رہے ۔ بچی کی والدہ نے 2 سال تک کوئی درخواست نہیں دی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ماں ہونے کے ناطے اس کے کچھ حقوق ہیں جب وہ بچی سے مل سکتی ہے اسے دیکھ سکتی ہے تو اس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہمیں بچی کے ساتھ ماں کو ملنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم یہ بچی سکاٹ لینڈ ماں کے پاس نہین بھیج سکتے۔

ماں جب چاہے پاکستان ہمارے خرچے پر اپنی بچی سے ملنے آ سکتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ باقی سب باتیں صحیح ہیں لیکن تین اہم سوالات کے جواب بہت ضروری ہیں ایک تو عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کا سٹیٹس کیا ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ حبس بے جا کے مقدمے کی سماعت کر سکتی ہے جبکہ ابھی معاملہ گارڈین جج اور سکاٹ لینڈ جج کے پاس زیر التواء ہے تیسری بات یہ ہے کہ بچی کی فلاح کس میں ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل ناہیدہ محبوب الہی نے کہا کہ بچی کے والد سجاد احمد رانا نے سکاٹ لینڈ عدالت کے روبرو یہ بیان دیا تھا کہ وہ لڑکی کو پاکستان نہیں لے کر جائے گا۔

اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مقدمے کے حوالے سے تیکنیکی بنیادوں کی طرف نہیں جاتے سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان بچی اس عورت کے ساتھ رہ سکتی ہے جو کہ ایک غیر مرد کے ہمراہ رہتی ہے اور ایک بچے کو بھی جنم دے چکی ہے۔ کیا اس ماحول میں نہیں رہ سکتی جس ماحول میں اس کی ماں رہ رہی ہے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم گول مول فیصلہ نہیں کر سکتے بچی کی خوشی اور فلاح دونوں سکاٹ لینڈ اور ہماری عدالت عظمیٰ کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ مزید سماعت آج ہو گی۔