پی آئی اے کی نجکاری نہیں کمرشلائزیشن ہوگی۔سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں کا سلسلہ بند کردیا گیا، پرائیویٹ ایئر لائنز کیساتھ حکومت کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائیگی، پی آئی اے کے سینئر وائس پریذیڈنٹ کامران حسن، افتخار گل، عارف مجید، وسیم باری اورناصر جمال کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 17 جنوری 2007 18:34

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین13 ستمبر2006 ) پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر ماضی میں ہونے والی بھرتیوں کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، پرائیویٹ ایئر لائنز کے ساتھ حکومت کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی اس ضمن میں صدر مملکت کے ڈائریکٹوز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، پی آئی اے کی نجکاری نہیں ہوگی بلکہ کمرشلائزیشن ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار پی آئی اے کے سینئر وائس پریذیڈنٹ کامران حسن، ایئر وائس مارشل افتخار گل، عارف مجید، وسیم باری اور ناصر جمال نے یہاں مقامی ہوٹل میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کامران حسن نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پی آئی اے کے بارے میں گفتگو رہی ہے یہ منافع بخش ورلڈ کلاس ایئرلائن ہے، 54ء میں پی آئی اے شروع ہوئی تھی اس کا باقاعدہ بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے پی آئی اے کے پاس نہایت عمدہ جہازوں کا فلیٹ ہے اسے مسافروں سے 80 فیصد، 10 فیصد کارگو اوردیگر امور سے رقوم حاصل ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

پی آئی اے دنیا بھرکے تمام اہم مقامات پر جاتی ہے ڈیمانڈ دنیا بھر میں کم اور سپلائی ایئرلائنوں کی زیادہ ہے پی آئی اے نے مسافروں کی سہولت کیلئے کئی نمایاں اقدامات اٹھائے ہیں کارگو میں 43 فیصد بہتری آئی ہے، 33 ارب روپے سے بڑھ کر 54 ارب روپے آمدنی ہوگئی ہے۔ 269.3 فیصد ڈومیسٹک آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ 1988ء سے 2007ء تک تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے پر مالی بوجھ بڑھا۔

ایئروائس مارشل افتخار گل نے کہا کہ سکیورٹی پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے پی آئی اے مینجمنٹ اس وقت تک اپنے جہازوں کو فضا میں جانے کی اجازت نہیں دیتی جب تک جہازوں کے حفاظتی اقدامات کا یقین نہ ہو جائے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پی آئی اے سے بہت سے انجینئرز وغیرہ چھوڑ گئے اوردیگر فضائی کمپنیوں میں چلے گئے اس کے بعد ان کی جگہ پر بھرتی نہ ہوئی جس سے مسائل نے جنم لیا اب 70 ڈپلومہ ہولڈرز رکھے گئے ہیں بہت سی ایئرلائنیں اپنے جہازوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے پی آئی اے پر انحصار کرتی ہیں ماضی میں یورپی یونین، سکیورٹی ایجنسی اورہمارے مابین کمیونیکیشن کا خلاء رہا جسے اب دور کر دیا گیا ہے ایک 747 طیارے کو اس وقت تک یورپ نہ بھیجا گیا جب تک اس کو یورپین سٹینڈرڈ کے عین مطابق نہ کر لیا جائے گا جس کے بارے میں شکایت پیدا ہوئی تھی۔

سینئر وائس پریذیڈنٹ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ وسیم باری نے کہا کہ مین کام کے نام سے ایک شعبہ بنایا گیا ہے جو کہ اہم فیصلے کرتا ہے ماضی میں کارکردگی کا معیار جانچنے کا پیمانہ معیاری نہ تھا اب اسے بہتر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اب پی آئی اے میں کام کرنے والوں کی اصل کارکردگی سامنے آتی ہے۔ یہ پالیسی بنائی گئی ہے کہ پی آئی اے میں نئی بھرتیوں کیلئے پہلے سے موجود ملازمین میں سے معیار کے مطابق بھرتی کی پیشکش کی جائے گی۔

اگر موجودہ ملازمین میں سے کرائیٹیریا پر کوئی پورا نہ اترے تو پھر بھرتی کیلئے عام اشتہاردیا جائے گا۔ افسران اورملازمین کیلئے حفظان صحت کے نقطہ نظر کے حوالے سے کیفے ٹیریا بنائے گئے ہیں۔ سینئر وائس پریذیڈنٹ عارف مجید نے کہاکہ پی آئی اے میں پروکیورمنٹ کے شعبے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ کامران حسن نے کہا کہ ماضی میں جتنی بھی خرابیاں تھیں انہیں اب انتظامیہ نے دور کردیا ہے جہاز کو 20 کی بجائے 10 سال کیلئے اڑایا جائے گا 2007ء میں بھی پی آئی اے منافع کمائے گی۔

2008ء میں 777 کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا ہم بین الاقوامی 48 فیصد اور اندرون ملک ریونیوکے حوالے سے 69 فیصد حصہ رکھتے ہیں اب ہمارے پاس آرائش یافتہ جہازہیں حکومت پی آئی اے کی 2001ء میں ری سٹرکچرنگ کی، افرادی قوت کا ہمیں مسئلہ درپیش رہا، پاکستان میں کرائے نسبتاً بہت ہی کم ہیں تیل کی قیمتوں میں اضافے کو کرائے میں شامل نہیں کیاگیا ہے جس کی وجہ سے بوجھ میں اضافہ ہوا۔

قطر ایئرویز 2012ء تک نقصان میں جاتی رہے گی، دوہا، دوبئی وغیرہ کی جانب پاکستانی لوگ جاتے ہیں اوران کا اپنا ٹریفک نہیں ہے سکائی اوپن پالیسی کی وجہ سے ہمارا نقصان ہوا۔ صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے یہ ڈائریکٹو دیا ہے کہ پی آئی اے کو نقصان پہنچانے والے ماضی کے اقدامات کا ازالہ کیا جائے پرائیویٹ ایئرلائنز پاکستان کے ادنر صرف نفع بخش روٹس پر پروازیں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ پی آئی اے ملک بھر کے تمام مقامات سے اپنی پروازیں جاری رکھے ہوئے ہیں ان مقامات میں خسارے والی پروازیں بھی ہیں ہونا یہ چاہیے کہ پرائیویٹ لائنز کوان تمام مقامات سے پروازیں چلانی چاہئیں جہاں سے پی آئی اے آپریشن کر رہی ہے۔

ایئر وائس مارشل افتخار گل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ ہر حکومت پی آئی اے میں اپنے لوگ بھرتی کرانا اپنا فرض سمجھتی رہی ہے ہم نے سیاسی بنیادوں پر بھرتی روک کر میرٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا ہے ہم نے ملازمین کی تنخواہ میں 35 فیصد تک اضافہ کیا ہے اس کے باوجود ابھی بھی 52 ملازمین ادارہ کی ملازمت ترک کرنے کیلئے درخواست دیئے ہوئے ہیں کئی ایسے شعبے ہیں جو چھوڑ گئے تھے وہ ملازمین واپس آنے کے خواہاں ہیں گزشتہ سال پی آئی اے کو 66 ارب روپے آمدنی ہوئی اوراخراجات 79 ارب روپے ہوئے اس طرح 13 ارب روپے کا خسارہ ہوا اب مسافروں کو سفر کے دوران شائستگی کا مظاہرہ کرنے کا درس دیں گے۔

پی آئی اے کی نجکاری کا کوئی پروگرام نہیں ہے پی آئی اے میں 18 ہزار ملازمین ہیں چیئرمین پی آئی اے کو ایڈوانس تنخواہ نہیں دی گئی اورانہیں حکومت کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق تنخواہ مل رہی ہے تاہم یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ان کی تنخواہ، مراعات وغیرہ کا پیکج کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :