ڈی ایس پی اور ایس ایچ او جوہر آباد کو سرزنش .نکمے پولیس افسیروں کیخلاف کارروائی کرکے انہیں گھر بھیج دیا جائے. چیف جسٹس کے ریمارکس..سپریم کورٹ کا آئی جی پنجاب کو ڈی ایس پی اور ایس ایچ او جوہر آباد کا فوری تبادلہ کرنے کا حکم

جمعہ 19 جنوری 2007 16:06

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین19جنوری2007 ) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے جوہر آباد میں اجتماعی زیادتی کے بعد ہلاک ہونے والی 14 سالہ لڑکی کے ملزمان کے خلاف پرچہ درج نہ کرنے اور الٹا متاثرہ خاندان کے خلاف پولیس کارروائی پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او جوہر آباد کو سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کے خلاف با اثر لوگوں کا ساتھ دیتے ہو 25 سال کی ملازمت ہے اور ابھی تک یہ پتہ نہیں کہ انکوائری کیسے کی جاتی ہے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے غریبوں پر مظالم کرنے اور ظالموں کا ساتھ دینے پر سزا تو تمہاری یہ تھی کہ تمہیں ہتھکڑی لگائی جاتی ایک تو نالائق افسران ہو اوپر سے باتیں زیادہ کرتے ہو آئی جی پنجاب ایسے نکمے افسروں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں گھر بھیج دیں خود ساختہ بیانات گھڑ کر اپنے پیسے کھرے کرلئے ہیں تمہارا کام یہ تھا کہ تم نعش کا پوسٹمارٹم کراتے علاقے کے حکیم اور امان مسجد کے بیانات لے کر آگئے تمہاری شکل بھی بتا رہی ہے کہ تم دونوں جھوٹ بول رہے ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز جوہر آباد کی رشیدہ خاتون کی درخواست پر از خود کارروائی کی سماعت کے دوران ادا کئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ ڈی ایس پی غلام مرتضیٰ اور ایس ایچ او احمد خان کا فوری طور پر کسی دور دراز علاقے میں تبادلہ کریں اور ان دونوں افسران سے فیلڈ ورک نہ لیا جائے تاکہ یہ ملزمان کے ساتھ مل کر سیشن جج کی انکوائری پر اثر انداز نہ ہوسکیں علاوہ ازیں ان کے محکمانہ انکوائری بھی کی جائے عدالت نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خوشاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس تمام معاملے کی مکمل انکوائری کریں اور تمام بیانات اور شہادتیں قلمبند کریں کہ آیا رخسانہ اجتماعی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے نمبر دو رشیدہ بی بی اور اس کے خاوند اور بچوں کو قائم کردہ مقدمات سچے ہیں یا جھوٹے ہیں اور ان مقدمات کو قائم کرنے میں کس کا کردار ہے علاوہ بچیوں کو مارا گیا اور شدید زدوکوب کیا گیا اس سلسلہ میں پولیس نے مقدمہ درج کیوں نہیں کیا اور ڈاکٹر جس نے بچیوں کا طبی معائنہ کیا میڈیکل سرٹیفکیٹ کیوں جاری نہیں کئے اگر ایسا سب کچھ ہوا ہے تو اس میں کئی بااثر افراد کا ہاتھ ہے انکوائری 22فروری 2007ء تک مکمل کرکے عدالت عظمیٰ میں پیش کی جائے دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خادم حسین قیصر نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ رشیدہ بی بی کی بیٹی چودہ سالہ رخسانہ گھاس کاٹنے کھیتوں میں گئی تو وہاں پر پہلے سے موجود ملزمان محمد اقبال اور محمد حسین نے انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئیں جبکہ لڑکی کی والدہ کو پولیس تک گاؤں کے نمبر دار شاہ دین اور دوسرے شخص نے اس بات کا یقین دلایا کہ تم ایف آئی آر درج نہ کراؤ ہم تمہیں دو ایکڑ زمین بدلے میں دیں گے لیکن پندرہ روز گزر گئے اور انہوں نے زمین نہ دی تو لڑکی کی والدہ نے ان سے رابطہ کیا تو مخالفوں نے بجائے ان کا مطالبہ تسلیم کرنے کے اس کے خاوند نواب دین کیخلاف غلط مقدمہ درج کرادیا اور پچیس دن بغیر گرفتاری ڈالے اس پر ظلم و ستم کیا اسی دوران درخواست گزار کی بیٹیوں زبیدہ ‘خدیجہ اور فرزانہ کو گھر میں جا کر مارا پیٹا گیا اور ان کی ماں کے پیٹ میں موجود چار ماہ کا بچہ بھی ملزمان نے لاتیں مار مار کر ضائع کردیا خاتون اپنی بچیوں کو قریبی ہسپتال لے گئی لیکن ڈاکٹروں نے نہ تو انہیں طبی امداد دی اور نہ ہی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کردیا جس پر وہ مقدمہ درج کرانے گئی اس پر درخواست گزار نے تنگ آکر عدالت ہذا میں درخوات دی تھی جس پر آپ نے ڈی پی او خوشاب کو انکوائری کا حکم دیا تھا اس دوران ڈی ایس پی غلام مرتضیٰ اور ایس ایچ او احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان پر خاتون کی طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات غلط ہیں چودہ سالہ رخسانہ طبعی موت مری ہے پولیس نے علاقے کے لوگوں ڈاکٹر سجاد احمد‘ مسجد امام الله بخش سے بیانات لئے ہیں جس میں کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے کہ ملزمان نے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ہے البتہ خاتون کے شوہر اور ان پر قائم کردہ مقدمات بالکل صحیح ہیں درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس کی گواہی کون دیتا سب کو تو گاؤں کے نمبر دار اور دوسرے با اثر لوگ ڈرا دھمکا رہے تھے مجھے بھی دھمکیاں دی گئیں تھیں پولیس والے کہتے تھے کہ جاؤ مائی ہم کچھ نہیں کرسکتے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کا اگر یہ کردار ہے تو غریبوں کی کس نے سننی ہے عدالت عظمیٰ نے تمام ریکارڈزاور بیانات کو دیکھتے ہوئے کہا کہ پولیس نے صحیح انکوائری نہیں کی ہے قتل کا الزام پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ظاہر ہوسکتا تھا آئی جی پنجاب فوری طور پر ان دونوں افسران کا تبادلہ کریں اور انہیں فیلڈ پوسٹنگ نہ دی جائے سیشن جج خوشاب مکمل انکوائری کرکے اس کی رپورٹ 22فروری 2007ء کو عدالت میں پیش کرے۔