پی آئی اے کا پریس بریف سینٹ کا استحقاق مجروح کرنا اور چیئرمین سینٹ کی توہین ہے، متحدہ اپوزیشن،چیئرمین سینٹ پی آئی اے انتظامیہ کیخلاف سخت الفاظ میں نوٹس لیں ورنہ آج ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے، میاں رضا ربانی، پروفیسر خورشید، عبدالرحیم مندوخیل، رخسانہ زبیری، انور بیگ اور دیگر رہنماؤں کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 25 جنوری 2007 22:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25جنوری۔2007ء ) سینٹ میں متحدہ اپوزیشن نے پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے پی آئی اے کی کارکردگی پر سینٹ میں جاری بحث کیخلاف اپنی طرف سے صحافیوں کو کارکردگی کی پریس بریفنگ پیپر بانٹنے کو ایوان کا استحقاق مجروح قرار دیتے ہوئے سینٹ کے چیئرمین سے مطالبہ کیا ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کیخلاف سخت الفاظ میں نوٹس لیا جائے ورنہ آج ہونے والے اجلاس میں واک آؤٹ جاری رکھیں گے اور اپنی تقریریں پریس کے سامنے کیفے ٹیریا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیش کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار جمعرات کے روز پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما رضا ربانی نے پروفیسر خورشید، عبدالرحیم مندوخیل، رخسانہ زبیری، انور بیگ اور دیگر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

پریس کانفرنس کے دوران رضا ربانی نے کہا کہ سینٹ سے ہمارا واک آؤٹ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک چیئر پی آئی اے کیخلاف ہدایات جاری نہیں کرتی۔

پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ پارلیمان میں جاری بحث کو سمیٹنے سے پہلے پریس کو کاپیاں فراہم کر دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کا پریس بریف سینٹ کا استحکام مجروح کرنے اور چیئرمین سینٹ کی توہین ہے ہم نے بڑی مشکلوں سے یہ بحث کروائی لیکن ہم یہ کہنے دیں گے کہ پی آئی کا کرپٹ ادارہ ایم ڈی ایوان بالا سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئر اگر ہدایات جاری نہیں کرتی تو متحدہ اپوزیشن دوسرے سیشن میں تحریک استحقاق پیش کر کے جدوجہد کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم وردی کے سامنے جدوجہد کر سکتے ہیں تو ایک ایم ڈی کیخلاف بھی کام کر رہے ہیں پی آئی اے کا چیئرمین اگر وزیر اعظم کا دوست ہے تو وہ اپنی عیاشیاں ان کے سامنے کرے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی میری بحث میں 45 پوائنٹس تھے، لیبر فنانس کمیٹی سے بالاتر ہو کر کرایہ حاصل کرنا، نجکاری، کارگو آپریشن، عمرے اور حج کیلئے لیزنگ پالیسی پر مشتمل تھی۔

دوسرے ممبران اس کیفے ٹیریا میں لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ ملازمین کیلئے جہنم ہے اور انتظامیہ نے اپنے اضافی اخراجات کو چھپانے کیلئے پریس بریف دیا ہے۔ عالمی لیبر تنظیم نے پی آئی اے اور حکومت کو ٹریڈ موومنٹ بحال کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا آج پی آئی اے مینجمنٹ مزدور کش پالیسی پر گامزن ہے ا کتوبر 2006ء تک 12243 ملازمین کو زبردستی فارغ کیا گیا جن تعلق گریڈ اے سے 5 تک ہے اس میں کوئی موٹی آسامی نہیں ہے۔

300 کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ ا نہوں نے کہا کہ پچھلے 3 ماہ کے دوران 43 مستقل ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے آج 13 سو ملازمین جو کہ گریڈ 6 کے اندر موجود ہیں ان کی لسٹیں فارغ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی روایات کیخلاف فلائٹ سروسز اور انجینئرنگ کے شعبے کے اندر کنٹریکٹ پر رکھا جا رہا ہے اس کی وجہ سے 15 سو ملازمین دوسرے ہوائی اداروں میں گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی آئی اے نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر ایک جہاز میں تین سو بندے بیٹھے ہیں لیکن اس وقت 421 لوگ بیٹھتے ہیں اور چیئرمین کے فارمولے کے مطابق 4477 ملازمین کو نکالا جائے گا۔ 78 کیبن کرو کے چیمبرز کو فارغ کر دیا گیا کیبن کرو کی ڈیوٹی ٹائم کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے مسافروں کے تحفظ کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیشن کرو کے الاؤنسز میں کٹوتی کم آمدنی والے ملازموں کی ہو رہی ہے جبکہ ہائی انکم گروپ جس میں ٹاپ مینجمنٹ کی تنخواہیں زیادہ ہیں جس میں چیف فنانشل آفیسر علم دین 8 لاکھ، ظفر عثمانی 5 لاکھ 75 ہزار روپے، عظمیٰ بشیر 3 لاکھ، عاصمہ 2 لاکھ 23 ہزار، اکرام 5 لاکھ، فلپ موریس 10 ہزار ڈالر، دو خواتین کنسلٹنٹ 5 ہزار روپے فی گھنٹہ تنخواہیں لے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی تنخواہوں کی وجہ سے ادارے کا بل 33 کروڑ 54 لاکھ بنتا ہے اس کے لئے ادارے کے پاس کیا جواز ہے ادھر کم آمدنی والے لوگوں کو فارغ کیا جا رہا ہے حکومت نے ایوب خان کو کراس کر دیا جس نے 22 خاندان پیدا کئے یہ اس سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی خواتین بے روزگار گھوم رہی ہے لیکن بیرون ملک کی خواتین کو ایئرہوسٹس بھرتی کیا گیا ہے جن کی ماہانہ 3 ہزار ڈالر تنخواہیں ہیں اور ان کے ہوم اسٹیشن ان کے ملک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک جہاز کی دم کی دوبارہ مرمت 29 ہزار 500 یورو ہے، 3 سو ایم بی ایز کو ادارے میں رکھا گیا جو پہلے سے ادارے میں موجود لوگوں کے اوپر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6 شعبوں کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے جو 13 اکتوبر 2006ء کو بیرونی کمپنی سوئس پورٹ انٹرنیشنل کو دیا گیا اور ٹینڈر دینے کے وقت صرف ایک اور کمپنی تھی جبکہ پی آئی اے اس کو مزید اشیاء خریدنے کیلئے پیسے دے گا 122 کروڑ اس کو دے گا اور پہلے 60 کروڑ میں اشیاء خریدتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ادارہ خود بیرون ملک سروسز فراہم کرتا تھا لیکن اب یہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ مینجمنٹ نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ٹھیکے دیئے ہیں اور ٹھیکیدار سے پیسے نہیں لئے گئے۔ فلائٹ کچن کو بھی ٹھیکہ پر دیا گیا لیکن اس کو ٹھیکے دینے سے پہلے تیار کیا گیا اور سنگاپور کی کمپنی کو بغیر کسی معاملے کے ٹھیکہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی مینجمنٹ لاگ بک کے اندر ڈیڑھ سال سے یورپی یونین کہہ رہی تھی کہ جہاز کی مرمت کرے تو کیوں نہیں کی بڑی تنخواہوں پر کیوں خرچ کئے جا رہے ہیں ہم چیلنج کرتے ہیں کہ پی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر پر مرمت کیلئے ادارے کے 27 کروڑ روپے کیوں لگے جبکہ پی آئی اے کالونی کراچی کی دس سال سے مرمت نہیں ہوئی ہم صبح اکٹھے ہوں گے حکمت عملی طے کریں گے۔

اگر ہدایات پاس نہ ہوئیں تو پریس سے رابطہ کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس نے بھی صحافیوں کو پریس بریفنگ پیپرز دیئے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کیخلاف کارروائی کرنے کی بجائے انتظامیہ کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ اتنی بڑی غلطی ادارے کا ملازم اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا اس کے پیچھے ضرور انتظامیہ کے ا حکامات ہوں گے۔