بینظیر کی واپسی کیلئے امریکہ کادباؤ نہیں ‘پیپلز پارٹی 1977ء والی سیاسی دہشتگردی کو واپس لانا چاہتی ہے ۔ محمد علی درانی ۔پیپلز پارٹی وہ شیشے کو توڑنے کی بجائے اپنی شکل اور اقدامات کو درست کرے ‘ نواز شریف نے واپسی کیلئے درخواست دی تو دیکھیں گے ۔حکومت عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کر رہی ہے ۔لاہور میں پریس کانفرنس

جمعرات 15 فروری 2007 16:32

بینظیر کی واپسی کیلئے امریکہ کادباؤ نہیں ‘پیپلز پارٹی 1977ء والی سیاسی ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین 15فروری2007 ) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات محمد علی درانی نے کہاہے کہ ہم اپوزیشن کو وارننگ دیتے ہیں کہ وہ قومی اداروں کیخلاف منفی پروپیگنڈے سے باز رہے ۔ شفاف انتخابات کیلئے اپوزیشن آئے ہم ملکر چیف الیکشن کمشنر کو تجاویز دیتے ہیں ۔بینظیر بھٹوکی واپسی کیلئے امریکہ کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں لیکن پیپلز پارٹی کی پاکستان میں موجود قیادت سے ہر وقت رابطے ہیں وہ بھی تعاون کرتے ہیں ۔

میاں نواز شریف ڈیل کر کے اپنی مرضی سے گئے ہیں اگر وہ اب واپسی کیلئے کوئی درخواست دیں گے تو دیکھا جائیگا ۔ اپوزیشن کو ہمیشہ تذلیل اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب بھی اسے قومی اداروں پر تنقید سے ذلت اور شرمندی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔سندھ میں پہلے بھی شفاف انتخابات ہوئے تھے اور اب ضمنی انتخابات میں بھی تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

استعفوں کی بات کرنا اپوزیشن کیلئے شرمندگی اور تذلیل کا باعث بن چکی ہے ۔ وہ گزشتہ روز لاہور میں مسلم ٹاؤن میں اپنی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پر عمران ریاض بھی موجود تھے ۔ محمد علی درانی نے کہا کہ 1977ء میں سیاسی دہشتگردی کا آغاز ہوا تھا جو پیپلزپارٹی نے کیا تھا اور اب یہ اسی سیاسی دہشتگردی کو واپس لانا چاہتے ہیں ۔

آج اپوزیشن کا مقصد بے مقصدیت اور منفی بن چکا ہے جسے عوام مسترد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک ‘ڈیسک بجانا ‘ استعفوں کی باتیں اور کورم توڑنااپوزیشن کیلئے شرمندگی اور تذلیل کا باعث بن چکا ہے ہم نے آئندہ عام انتخابات میں عوام کی خدمت کے ووٹ لینے ہیں دھونس اور دھاندلی کے نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک ہنگامہ آرائی کی طرف نہیں بڑھ رہا بلکہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی نے خود ہی ڈیل کا ڈرامہ رچایا اوراسے خود ہی آگے بڑھایا اب ان سے کوئی ڈیل نہیں ہو رہی اور عوام کے سامنے بھی انکا اصل چہرہ آ چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کسی جماعت سے بھی ڈیل سمیت جو کچھ بھی ہوا اسے عوام کے سامنے لایا جائے گا ۔ ہم پیپلز پارٹی سے کہتے ہیں کہ وہ شیشے کو توڑنے کی بجائے اپنی شکل اور اقدامات کو درست کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سرحدوں اور انکے تحفظ کے بارے میں بہت کلیئر ہے ہمارے ہمسا یہ ممالک خصوصاً افغانستان کی صورتحال بھی افغانستان میں ہی ٹھیک ہو سکتی ہے اس لئے سب کو وہاں پر ہی توجہ دینی چاہیے جو سب کے مفاد میں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن قومی اداروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی اصلاح اور اپنے بیانات پر نظر ثانی کرے آئینی اور دستوری اداروں کے بارے میں کوئی بھی الفاظ بولنے سے پہلے احتیاط سے کام لے ۔ عوام ان اداروں کے بارے میں منفی بات کرنے کی ا جازت نہیں دینگے ۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہارنے پر دھاندلی کا شور مچا کر ریلیاں اورمظاہرے کرتے ہیں لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن میں کوئی پٹیشن جمع نہیں کروائی گئی ۔

پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے وہ سیکھے جو اس کے لئے مستقبل میں فائدے مند ہو اگر اس نے سپریم کورٹ پر حملے کا سیکھنا ہے تو یہ اس کے لئے بہت بڑا خسارہ ہو گا ۔حکومت عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کر رہی ہے ہم شفاف الیکشن کرانا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش بھی ہے کہ یہ الیکشن شفاف ہوں اس کے لئے ہم اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ملکر چیف الیکشن کمشنر کو تجاویز دیتے ہیں ۔

محمد علی درانی نے کہاکہ کراچی میں 2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے اختیار بیگ کو دس ہزار ووٹ ملے تھے اور اب 2007ء کے ضمنی انتخاب میں بھی نفیس صدیقی کو دس ہزار ووٹ ملے ہیں ایم ایم اے کے کارکنوں نے انہیں اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ انہیں ووٹ دیں پیپلز پارٹی کی ہار کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ وہ خود ہے پیپلز پارٹی کی یہ روش اور عادت بن چکی ہے کہ وہ جب بھی ہارتی ہے تو دھاندلی کا الزام لگاتی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی ماضی کی غلطیاں اتنی جلدی انکا پیچھا نہیں چھوڑیں گی اب اسکی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ سندھ کا کارڈ ڈاکٹر غلام ارباب رحیم اور مسلم لیگ (ق) کے پاس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کے کارکنوں کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو جائیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے اے پی سی کیلئے جس طرح مسلم لیگ (ن) کی تذلیل کی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی سے جو بھی ڈیل کرے گا اسکی تذلیل ہی ہو گی ۔

میاں نواز شریف ڈیل کر کے اپنی مرضی سے گئے تھے جس میں چند دوست ملکوں کی کوششیں بھی شامل تھیں اب اگر وہ واپسی کیلئے کوئی درخواست دیتے ہیں تو اس ڈیل کے اندر رہتے ہوئے دیکھا جائے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور اپوزیشن بھی ہم سے تعاون کرے ۔ حکومت آنکھیں کھول کر بیٹھی ہے اور کسی کو بھی مہنگائی کی اجازت نہیں دیگی پاکستان میں پٹرول بھارت کی نسبت 33سے 35فیصد سستا ہے ۔