صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل کو چیف جسٹس کو معطل کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس (ر) قیوم ملک

افتخار محمد چوہدری ابھی بھی چیف جسٹس ہیں اور اس بات کو قائم مقام چیف جسٹس نے بھی تسلیم کیاہے، حکومت میں کوئی وزیر صحیح کام نہیں کر رہا، اس وقت بیورو کریسی کی حکومت ہے، افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے اقدام عجلت میں اٹھایا گیا، ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، میڈیا پر پابندی کیخلاف ہیں، آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ذرائع ابلاغ کو آزادی حاصل ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کی صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 15 مارچ 2007 18:14

اسلام آباد (اردوپوئنٹ تازہ ترین اخبار15 مارچ2007) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، آئین کی دفعہ 209 کے تحت صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل کو چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، رانا بھگوان داس لکھنوٴ میں ہیں امیگریشن اوردوسرے حکام کو اس کا پتہ نہیں، جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف کارروائی کا مشورہ دینے والا صدر کا دوست نہیں ہوسکتا یہ اقدام عجلت میں اٹھایا گیا ہے، افتخار چوہدری ابھی بھی چیف جسٹس ہیں جسے قائم مقام چیف جسٹس نے بھی تسلیم کیا ہے، ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے،میڈیا پر پابندی کے خلاف ہیں کیونکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا کو آزادی حاصل ہے تاہم میڈیا سپریم جوڈیشل کونسل کے میرٹ کے حوالے سے بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی خود ہی صدارتی ریفرنس کے تحت لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کوئی بات کر سکتا ہے۔

(جاری ہے)

باقی سب کچھ رپورٹ کیا جا سکتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں سپریم کورٹ میں نئی تنظیم ”لائرز موومنٹ ٹوسیو جوڈیشری“ کے قیام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت صدر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے طریقہ کار میں ترمیم چاہتے ہیں تاکہ صدر بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکے اور مستقبل میں اسے بطور ہتھیار استعمال نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر پابندی کے خلاف ہیں کیونکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا کو آزادی حاصل ہے تاہم میڈیا سپریم جوڈیشل کونسل کے میرٹ کے حوالے سے بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی خود ہی صدارتی ریفرنس کے تحت لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کوئی بات کر سکتا ہے۔

باقی سب کچھ رپورٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کے اختیارات حاصل ہیں تاہم کونسل کوئی عدالت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کسی بھی جج کو جبری رخصت پر گھر بھیج سکتے ہیں اور صدر کو یہ اختیارات 1970ء کے صدارتی آرڈر کے تحت حاصل ہیں جسے 1975ء میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ یہ آئین اس وقت کے وزیر قانون جسٹس کوآرڈینیشن نے بنایا تھا کہ اگر کوئی جج کے خلاف ریفرنس ہے تو اس جج کو رخصت پر بھیجا جا سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو قصور وار قرار دیتی ہے تو صدر پر اس کا حکم بائینڈنگ نہیں ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوجداری اور سول کارروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک قسم کی انضباطی کارروائی ہے جس طرح انہوں نے خود کرکٹ انکوائری کی تھی انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ بھارت میں ججوں کی انکوائری کا طریقہ بھی سیاسی دباؤ کے تحت اپنے حق میں کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز 2005ء جوڈیشل کونسل کا بھی فیصلہ کرنا ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ سماعت ان کیمرہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کا کوئی وزیر کام صحیح طور پر نہیں کر رہا ہے اور ملک میں بیورو کریسی کی حکومت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جسٹس رانا بھگوان داس لکھنو میں ہیں امیگریشن اور دوسرے حکام کو اس لئے اس کا پتہ نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے ججز کو تمام سارک ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کرنے کی خصوصی اجازت حاصل ہے اور ان کے پاسپورٹ پر ایک خصوصی مہر لگائی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس رانا بھگوان داس 2 یا 3 مارچ کو چھٹی پر گئے تھے اور 23 مارچ کو ان کی چھٹی ختم ہو گی ان کی واپسی اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی حیثیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کونسل میں بیٹھنے کے حوالے سے وہ خود ہی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخا رمحمد چوہدری کے خلاف کارروائی کا مشورہ دینے والا صدر پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔

یہ اقدام عجلت میں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس ہیں اور اس بات کو قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخا رمحمد چوہدری کی سپریم جوڈیشل کونسل میں حاضری کے وقت پولیس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ کوئی بم چلانے نہیں آ رہے تھے وہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دن تھا جس دن چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری سے پولیس نے بدسلوکی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر کو چیف جسٹس کو کام سے روکنے کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی صد رچیف جسٹس کو نوکری سے فارغ کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تاہم سترہویں ترمیم اور دوسرے سیاسی مقدمات کے فیصلوں کو وہ آج بھی درست تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔