لاہور میں وکلاء پر پولیس تشدد‘ سپریم کورٹ کا لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج کو 7 روز میں انکوائری مکمل کرنے کا حکم۔۔پاکستان میں کوئی ایسی قوت موجود نہیں جو سپریم کورٹ جیسے ادارے کو ختم کرسکے‘ پرامن احتجاج کو کسی طور غصب نہیں کیا جاسکتا۔پولیس لوگوں پر ایسے تشدد کررہی تھی جیسے وہ ہمارے ملک کی پولیس نہیں ایسا تو یوگنڈا اور ایتھوپیا میں بھی نہیں ہوتا۔ قائم مقام چیف جسٹس

منگل 20 مارچ 2007 12:00

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین20 مارچ 2007 ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور میں وکلاء کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی کے حوالے سے ہائی کورٹ کے سینئر جج کو سات روز میں انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے لاہور میں وکلاء پر پولیس تشدد کے ہوالے سے دائر درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسی کوئی قوت موجود نہیں ہے جو سپریم کورٹ جیسے ادارے کو خراب یا ختم کرسکے پرامن احتجاج کا حق جمہوریت کے لئے بہت ضروری ہے جسے کسی طور غصب نہیں کیا جاسکتا پولیس جس بے دردی سے لوگوں پر تشدد کررہی تھی اس سے لگتا تھا کہ ہمارے ملک کی پولیس ہی نہیں ہے ایسا تو یوگنڈا اور ایتھوپیا میں بھی نہیں ہوتا‘ لاہور ہائی کورٹ کے گیٹ بند کرنے کا پولیس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ پڑھا لکھا پنجاب میں ہورہا تھا عدلیہ کا بحران اپنی جگہ لیکن ادارے ہمیشہ چلتے رہتے ہیں وکلاء کی شکایات دور کرنے کے لئے ہر قسم کے اقدامات کئے جائیں گے‘ انہوں نے وکلاء سے استدعا کی کہ جیسے چاہیں احتجاج کریں لیکن عدالتوں میں انصاف کے حصول اور سائلین کے بہترین مفاد میں اپنی حاضریوں کو یقینی بنائیں‘ کسی بھی وکیل کا کوئی کیس عدم پیروی کی وجہ سے خارج نہیں کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز اطہر من الله ایڈووکیٹ اور نصیر بھٹہ کی مشترکہ درخواست پر لئے گئے از خود نوٹس کی کارروائی کی سماعت کے دوران ادا کئے ہیں سماعت قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی گزشتہ روز سماعت کے دوران آئی جی پنجاب احمد نسیم ایڈووکیٹ جنرل پنجاب چوہدری آفتاب اقبال چیف سیکرٹری پنجاب سلمان صدیق سیکرٹری داخلہ ملک اقبال کے علاوہ درخواست گزار وکلاء اطہر من الله اور نصیر بھٹہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

نصیر بھٹہ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے اور یہ واقعہ اب تو اخباروں میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ جبکہ اطہر من الله ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس ہائی کورٹ سے باہر وکلاء پر پتھر برسا رہی تھی جس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ نصیر بھٹہ نے کہا کہ پولیس نے ہائی کورٹ بلڈنگ کے تینوں گیٹ بند کردیئے تھے اور بھاری دستوں نے ہائی کورٹ کا محاصرہ کررکھا تھا تب وکلاء نے ہائی کورٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو انہیں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے بہت سے وکلاء زخمی ہوئے اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے اس معاملے کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ہے وکلاء پر بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں اس کے لئے پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے انکوائری کا حکم دیا ہے۔

جس میں ہائی کورٹ کے تین ججز جسٹس مزمل حسین‘ جسٹس شبر رضا رضوی اور جسٹس حامد علی شاہ شامل ہیں اس پر قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اس طرح کے جلسوں سے نمٹنے کے لئے پولیس کے پاس صلاحیت نہیں ہے اور انہوں نے آج تک ماپ سائیکالوجی کا نام بھی نہیں سنا ہوگا ہائی کورٹ میں جلسہ ہورہا تھا وکلاء کو اگر باہر آنے دیا جاتا تو کیا ہوجاتا ہائی کورٹ کے سامنے بکتر بند گاڑی کھڑی ہے کیا کوئی قیامت برپا ہوگئی تھی اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وکلاء کے جلسے میں بہت سے شرپسند عناصر داخل ہوگئے تھے جنہوں نے کالی جیکٹس پہن رکھی تھیں جس سے واقعے کو غلط رنگ دیا گیا اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت شرپسندوں کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے ہم وکلاء کے ساتھ ہونے والے معاملے کو دیکھ رہے ہیں پرامن احتجاج سے کسی طور نہیں روکا جاسکتا تاہم اتنے زیادہ کالے کوٹ بازار میں کیسے آگئے تھے جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے دروازے کس نے بند کئے تھے تو ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ دروازے پولیس نے بند کئے تھے اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کے پاس ہائی کورٹ کے گیٹ بند کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا تاہم وکلاء آج جذباتی ہورہے ہیں سب کو یکجہتی کی ضرورت ہے اگلی بار پولیس کو گائیڈ لائن دی جائے گی کہ وہ اس طرح کے حالات سے کیسے نمٹیں گے اگر شائستگی اختیار کی جاتی تو سارے معاملات خود بخود حل ہوجاتے انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی ہائی کورٹ کا سینئر جج سات روز میں انکوائری کرے گا مزید سماعت انکوائری رپورٹ کے بعد کی جائے گی۔