آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں وکلاء کا احتجاج، عدالتوں کا بائیکاٹ،لاہور میں ایوان عدل سے مال روڈ تک وکلاء کی ریلی، کراچی میں جناح روڈ تک مارچ، خواتین کی بھوک ہڑتال، حکومت کیخلاف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں نعرہ بازی،راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت تمام اضلاع اور تحصیلوں میں وکلاء نے عدالتی کارروائی کابائیکاٹ کیا، سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا

منگل 3 اپریل 2007 20:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3اپریل۔2007ء) غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف صدارتی ریفرنس کے موقع پر منگل کو آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں وکلاء نے احتجاجی مظاہرے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ وکلاء نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں اور حکومت کیخلاف نعرہ بازی کی۔ لاہور میں وکلا ء کی ریلی ایوان عدل سے شروع ہو نے کے بعد مال روڈ پر پہنچ گئی۔

اس موقع پر پولیس اور پولیس کمانڈوز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔پولیس نے وکلاء کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا۔ادھر متحدہ مجلس عمل اور دیگر اپوزیش جماعتوں کا جلوس ناصر باغ سے شروع ہو کر ایوان عدل پہنچا اور وہاں پہنچنے کے بعد مظاہرین نے ہاتھوں کی زنجیر بنائی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔اطلاعات کے مطابق لاہور میں اپوزیشن اور وکلاء کے جلوس پر امن رہے ہیں۔

کراچی میں وکلاء نے عدالتوں کا بائی کاٹ کیا۔وکلاء نے غیر فعال چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں ریلی نکالی ہے جو ایم جناح روڈ کی طرف مارچ کر رہی ہے۔خواتین وکلا ء نے بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگایا ہے۔وزیراعلیٰ ہاوٴس کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔وکلاء حکومت کے خلاف اور جسٹس افتخار کے حق میں نعرے بازی کرہے تھے۔

پشاورکی وکلاء برادری نے بھی تمام عدالتوں کامکمل بائیکاٹ کیا اورپاکستان بارکونسل سے مطالبہ کیا کہ صدرمشرف کی جانب سے دوعہدے رکھنے کے اقدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے۔ پشاورہائی کورٹ کے بارروم میں جنرل سیکرٹری اشیتاق ابراہیم کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن اورڈسٹرکٹ کورٹ ایسوسی ایشن کے تمام وکلاء برادری نے شرکت کی اس موقع پر بارایسوسی ایشن کے سابق صدر عتیق شاہ نے اپنے خطاب میں پاکستان بارکونسل سے مطالبہ کیا کہ صدرمشرف کی جانب سے دوعہدے رکھنے کے اقدامات کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے اس دوران برسٹرمسعود کوثرنے کہا کہ ہماری تحریک دونکات پرمشتمل ہے جس میں چیف جسٹس کی بحالی اورآزادعدلیہ کی بحالی شامل ہے انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک تیزی سے جاری ہے اوروکلاء برادری کے ساتھ ساتھ شہری بھی مشرف کے خلاف جاگ اٹھے ہیں۔

بیرسٹرمسعو دکوثر نے کہا کہ ہم بہت جلد اپنے مقاصد میں کامیاب ہونگے اس دوران محمدعیسی خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ مشرف کوہٹاکر چیف جسٹس کوبحال کیاجائے توہمار اکام پورا نہیں بلکہ ادھورا رہ جائے گا ہمار کام اس وقت پوراہوگا جب عدلیہ کی ساکھ بحال ہوجائے ۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی تک ہماری یہ تحریک جاری رہے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عبدالصمد خان ایڈووکیٹ نے جذباتی انداز میں کہا کہ یہ غیرفعال کالفظ کہاں سے آگیاکہ چیف جسٹس غیرفعال ہوگیا ،یہ سراسرظلم اورزیادتی ہے،یہ لفظ نہ استعمال کیا جائے۔

کریم محسودایڈووکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کون ساقانون ہے کہ ایک جرنیل صدر بن سکتا ہے، ایک شخص جرنیل اورصدارت کے دوعہدے کیسے رکھ سکتا ہے ؟اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے صدرشمس الحق قیصر رشید ایڈووکیٹ اوردیگر وکلاء نے خطاب کیا۔ دریں اثناء وکلاء برادری نے اجلاس کے اختتام پر پشاورہائی کورٹ سے ایک احتجاجی جلوس نکالا جس میں تمام وکلاء برادری نے بھرپور شرکت کی۔

وکلاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اوربینر اٹھارکھے تھے جس پر گومشرف گو اور فوجی حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔ وکلاء برادری نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے سیشن کورٹ تک احتجاجی مارچ کیا۔ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے عدالتوں سے مکمل بائیکاٹ کیا اور احتجاجی ریلیاں منعقد کیں۔ کوئٹہ میں وکلاء تنظیموں کی اپیل پر وکلاء برادری نے منگل کو عدالتوں سے مکمل بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے عدالتوں میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ۔

اسد اچکزئی ایڈووکیٹ،سید مصور آغا،عبدالسلام، شبیر راجپوت ایڈووکیٹ نے کوئٹہ کچہری میں علامتی بھوک ہڑتال میں شرکت کی ۔بعد میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہادی شکیل ایڈووکیٹ،پاکستان بار کونسل کے سینئر نائب صدر علی احمد کرد اور بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہاشم کاکڑ کی قیادت میں وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے ریلی نکالی جو قندھار بازار،لیاقت بازار، جناح روڈ پر گشت کرنے کے بعد بلوچستان اسمبلی چوک پر ہاتھوں سے انسانی زنجیر بناکر ہر قسم کی ٹریفک معطل کردی اس موقع پر وکلاء نے جنرل پرویز مشرف، وفاقی حکومت، آمریت کے خلاف جبکہ غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں زبردست نعرے بازی کی۔

اس موقع پر ہادی شکیل ایڈووکیٹ،ہاشم کاکڑ اور علی احمد کرد نے خطاب کیا ۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر صدارتی ریفرنس کو واپس لیکر افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے عہدے پر بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف اس طر ح کی کارروائی براہ راست عدلیہ پر حملہ ہے جسے وکلاء کسی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔

عدلیہ کی آزادی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وکلاء عدلیہ کی آزادی کیلئے 9مارچ سے احتجاج کررہے ہیں جمہوری آزادی اور آزاد عدلیہ کیلئے رول ادا کرتے رہیں گے عدالتوں اور اسمبلیوں میں ایسے لوگوں کو بیٹھنا چاہئے جوقبضے کی بجائے ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے بصورت دیگر ادارے نہیں چل سکیں گے حکومت نے دھمکیوں اور دباؤ سے جب وکلاء کو جدوجہد سے باز نہ رکھ سکی تو 600پراسیکیوٹر اور دیگر مراعات کا لالچ دیا گیا جسے وکلاء نے یکسر مسترد کردیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وکلاء کی تحریک کو سارے پاکستان کے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف کوئی بھی ناجائز طریقے سے ان پر حکومت نہیں کرسکتا۔

دریں اثناء حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض وکلاء نے نام نہ بتانے کی شرط پر ”آئی این پی،،کو بتایا کہ لویئر کورٹ کے بڑی تعداد کے جج اور مجسٹریٹ صاحبان غیر فعال چیف جسٹس کی طرف داری کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ منگل کو ہم عدالتوں میں پیش ہونے کیلئے جب کچہری اور سیشن کورٹ پہنچے تو عدالتوں کے سامنے پہلے ہی لسٹ آویزاں تھی جس پر تمام کیسوں کی سماعت اگلے تاریخ تک ملتوی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسی بھی کورٹ کا ملازم پہلے آواز لگا کر وکیل کو کیس کے سلسلے میں پیش ہونے کیلئے کہتا اگر کوئی وکیل پیش نہ ہوتا تو پھر جج یا جوڈیشل مجسٹریٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کیس کی سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کردیتا۔ ہم عدالتوں میں موجود ہونے کے باوجود کوئی آواز نہیں لگائی گئی اور نہ ہی عدالتوں میں کوئی سماعت ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر شہروں لورالائی،پشین،چمن،مستونگ،قلات،خضدار،پنجگور،تربت،گوادر،حب،ڈیرہ مراد جمالی، جعفرآباد اور اوستہ محمد سمیت دیگر علاقوں میں وکلاء اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے افراد نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ راولپنڈی میں بھی وکلاء نے احتجاج اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا منگل کے روز ضلع کچہری میں 1111 مقدمات کی سماعت ہونا تھی ان میں سے کسی بھی کیس کی سماعت نہ ہوسکی جس کے باعث سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

گوجرانوالہ ،سیالکوٹ ، ساہی وال ،شیخوپورہ، پاک پتن، قصور ،چونیاں ، خوشاب اور دیگر شہروں میں بھی وکلاء نے بھرپور احتجاج کیا۔ سیالکوٹ میں وکلا نے مکمل ہڑتال کی اور کوئی وکیل عدالتو میں پیش نہیں ہوا۔شیخوپورہ میں وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جب کہ احتجاجی ریلی شہر کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی ضلع کچہری پہنچ کر ختم ہوئی۔چونیاں میں وکلا نے عدالتی بائی کاٹ کے علاوہ جلوس نکالا اور چیف جسٹس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

پاک پتن میں شہر کے اندر ریلی نکالی گئی جس پر تاجروں نے گل پاشی کی۔ چنیوٹ میں وکلا کے جلوس نے شہر کے مختلف بازاروں کا چکر لگایا۔پنڈی بھٹیاں میں بھی وکلا نے مکمل ہڑتال کی۔ آزاد کشمیر بھرمیں بھی جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف صدارتی ریفرنس کے موقع پر وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ میر پور بار نے افتخار محمد چوہدری سے یکجہتی کے طور پر عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا۔

صدر بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد محفوظ نے چیف جسٹس کی غیر آئینی معطلی کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس کو واپس لے کر فوری طور پر بحال کیاجائے ۔ بصورت دیگر میر پور بار ایسوسی ایشن پاکستان میں ہڑتالوں کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اس موقع پر چوہدری محمد طارق نائب صدر اور راجہ رزاق کشمیری جنرل سیکرٹری نے بھی پر زور الفاظ میں چیف جسٹس کی معطلی کی مذمت کی اور بحالی کا مطالبہ کیا۔

ضلع باغ میں وکلاء نے مکمل ہڑتال کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور احتجاجی مظاہرے کئے اورمطالبہ کیا کہ صدارتی ریفرنس واپس لے کر چیف جسٹس کو بحال کیا جائے ۔ پاکستان بار کونسل کے ممبر سردار عبدالقیوم بیگ کی قیادت میں باغ بار کونسل کے وکلاء نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس واپس لے کر انہیں اپنے عہدے پر بحال کریں۔

انہوں نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری کے خلاف کی گئی کارروائی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف جنگ بند نہ کی گئی تو اس سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ وکلاء نے اس موقع پر چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگائے اور ان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔