جنرل مشرف کے ساتھ ہر گز ڈیل نہیں کروں گا۔ نواز شریف۔۔اگر میں صدر مشرف کو تسلیم کر لوں تو وہ مجھے فوری پاکستان آنے کی اجازت دیدیں گے لیکن میں ان سے ڈیل کر کے ہر گز اپنی غیرت اور ضمیر کا سودا نہیں کروں گا

آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پاکستان ضرور جاؤں گا، صدر مشرف نے کارگل ایشو پر مجھ سے خفیہ رابطہ رکھا اس کا ثبوت موجود ہے، صدر مشرف کے جہاز کو اترنے سے روکنے کیلئے رن وے بلاک نہیں کرایا، مجھ پر ہائی جیکنگ کا کیس اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے بنایا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

بدھ 11 اپریل 2007 22:56

دوبئی (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین11اپریل2007 ) مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر میں صدر مشرف کو تسلیم کر لوں تو وہ مجھے فوری پاکستان آنے کی اجازت دیدیں گے لیکن میں ان سے ڈیل کر کے ہر گز اپنی غیرت اور ضمیر کا سودا نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں کہ جنرل مشرف نے آئین توڑا ہے معاہدے پر زبردستی دستخط کرائے، والد کی وفات پر حکومت نے مشروط طو پر پاکستان آنے کی اجازت دی لیکن میں نے انکار کر دیا، آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پاکستان ضرور جاؤں گا،جو لوگ ہماری حکومت کے خاتمے کا باعث بنے وہ آج صدر مشرف کے پاس بیٹھے ہیں ایسے لوگوں کو واپس لینا ملک و قوم کے ساتھ غداری ہے ،آئندہ اقتدار ملے یا نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں آئین اور قانون بحال ہو، صدر مشرف نے کارگل ایشو پر مجھ سے خفیہ رابطہ رکھا اس کا ثبوت موجود ہے، صدر مشرف کے جہاز کو اترنے سے روکنے کیلئے رن وے بلاک نہیں کرایا تھا، مجھ پر ہائی جیکنگ کا کیس اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے بنایا گیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو ایک نجی ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں میاں نواز شریف نے کہا کہ حکومت پاکستان اورصدر مشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ڈیل ہوئی ہے اگر ڈیل کرنی ہوتی تو گرفتاری کے وقت کرلیتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چاہتا تو صدر مشرف سے معافی مانگ سکتا تھا اور پہلی رات ہی دستخط کرتا تو باہر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرمیں صدرمشرف کو تسلیم کرلوں اور ان کے اقدامات کی حمایت کروں تو وہ فوری طور پر مجھے پاکستان آنے کی اجازت دیدیں گے لیکن یہ میرے ضمیر کا سودا ہوگا اور میں یہ سودا نہیں کروں گا جنرل مشرف سے ہر گز ڈیل نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے 14 ماہ تک کال کوٹھڑی میں رکھا گیا مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں جنگی قیدی ہوں کراچی لے جانے کیلئے ہتھکڑی لگا کر طیارے میں کرسی کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی میں اٹک قلعے میں بند تھا اور وہاں فوج کا پہرہ تھا ایک میجر جسے جیل سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تھا اس نے آ کر مجھے کہا کہ آپ سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے جب میں باہر آیا تو ایک صاحب جو سعودی عرب آئے تھے انہوں نے کہا کہ آپ تیاری کرلیں کیونکہ آپ کو ہمارے ساتھ سعودی عرب جانا ہوگا اس نے بتایا کہ یہ معاملہ سعودی حکومت اور صدر مشرف کے درمیان طے ہوا ہے اس نے کہا کہ میں کچھ دن بعد پھرآؤں گا جس کے بعد مجھے تین دن بعد ایک خط موصول ہوا جو کہ تین چار صفحوں پر مشتمل تھا میں نے یہ واقعہ پہلے کسی کو نہیں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ خط میں لکھا تھا کہ میں اپنے کردار پر بہت شرمندہ ہوں میں بطور وزیراعظم جس طرح مجھے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں تھیں میں نہ کر سکا اور میں نے سوچ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے میں فوج اور عوام سے معافی مانگتا ہوں کہ میں اپنی کئے پر بہت شرمسار ہوں اور میں عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کی تکمیل میں بری طرح ناکام رہا ہوں۔

نوازشریف نے کہا کہ خط کے نیچے میرا نام لکھا ہوا تھا جس پر مجھے کہا گیا کہ دستخط کر لیں پھر آپ جا سکتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ اس کے پیچھے پاکستانی فوجی جوان تھے اور ڈرافٹ بھی انہوں نے خود کیا تھا۔ میں نے کون سا جرم کیا ہے کہ میں معافی مانگوں اوراس پر دستخط کروں۔ نواز شریف نے کہا کہ تین دن بعد وہ صاحب آئے ا ور کہا کہ ہم آپ کو لے کر چلے جائیں گے میں نے کہا کہ مجھے تفصیل تو بتائیں میراپاکستان حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ ہواہے اور نہ ہی صدر مشرف سے میرا کوئی لین دین ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ میرا جو موقف 12 اکتوبر کی رات کو تھا آج بھی وہی ہے میرا موقف ہے کہ صدرمشرف نے آئین توڑا ہے اور وہ بڑے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کوئی ڈیل ہونی چاہیے نہ کر سکتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ میرے والد جب وفات پا گئے تو میں اپنے والد کی تدفین کے موقع پر بھی موجود نہیں تھا مجھے حکومت پاکستان مشروط طریقے سے ملک واپس جانے کی اجازت دینے کیلئے تیار تھی لیکن میں نہیں مانا میرا موقف تھاکہ اگر میں پاکستان جاؤں گا تو بغیر کسی شرط کے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مشرف اپنی شرطیں پیش کرتے رہے اور میری بات نہیں مانی میرے لئے ان کی شرطیں ماننا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں یہ میری ذات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کا معاملہ ہے اگر پاکستان کے ساتھ اسی طرح زیادتی اور ظلم ہوتے رہیں گے تو ملک کا کیا بنے گا میں آج بھی چاہوں تو مشرف سے آسانیاں لے سکتا ہوں اگر میں ان سے کہوں کہ میں آپ کوصدر ماننے کیلئے تیارہوں تو وہ مجھے کہیں گے کہ آپ صبح ہی واپس آ جائیں بلکہ ابھی ہی پاکستان آ جائیں اور یہاں آ کر اعلان کریں مجھے کوئی چیز روکتی ہے تو وہ میراضمیر ہے اپنی غیرت اوراپنے ضمیر کا کبھی سودا نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے طیارہ سازش کیس کا علم ہی نہیں تھا ایسی کوئی سازش نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کیلئے میرے بہترین جذبات موجود تھے لیکن فوج نے میرے ساتھ جو کچھ کیا اس پر یقین نہیں آتا۔ نواز شریف نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی ایک اہم ڈاکومنٹ ہے یہ پاکستان کے لئے نیک شگون ہے ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں موجود ہے کہ کسی فوجی سے ڈیل نہیں کریں گے او رہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور امید ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اس پر کاربند رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ 6 سال سے زائد ہو چکے ہیں کہ میں پاکستان سے باہر ہوں پاکستان آنے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جب پاکستان گئے توصدر مملکت نے کمانڈو ایکشن کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو غیر فعال کر دیا گیا اور انہیں چھ گھنٹے تک آرمی ہاؤس میں بٹھائے رکھا گیا اور ان کو فوج کی وردی کا رعب دکھایا گیا اور ان سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پاکستان کب تک اس اصول پر چلتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگل کا قانون بھی ایسا نہیں ہوتا اور اس کا بھی کوئی قانون قاعدہ ہوتا ہے مگر جنرل مشرف نے جنگل کا قانون بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا وطن واپس جانے کا ارادہ ہے مجھے باہر رہنے کا کوئی شوق نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف او رمیرے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہماری کسی ایک ایشو پر سوچ میں فرق ہو سکتا ہے ۔

نواز شریف نے کہا کہ شہباز شریف میرے چھوٹے بھائی ہیں اور میری بہت مدد کرتے ہیں او رمیں ان سے بہت پیار کرتا ہوں ۔ جب میں وزیر اعظم تھا تو جنرل مشرف نے میرے بھائی کو کہا کہ وہ میری جگہ وزیر اعظم بن جائیں لیکن میرے بھائی نے مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی اور بھائی ہونے کا حق ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے موقف کی فتح کے لئے پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں انتشار کا شکار ہے اور اے پی سی بھی اسی لئے بلائی گئی تھی تاہم پاکستان کے موجودہ حالات کے باعث اسے ملتوی کرنا پڑا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سب پارٹیاں اکٹھی ہیں اور اگر کوئی باہر رہے گی تو اسے سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے دو مرتبہ ہم تک اپنے بندے بھیجنے کی کوشش کی لیکن ہم نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ادارے اور آئین توڑنے والوں سے بات نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہماری حکومت کے خاتمے کا باعث بنے وہ آج صدر مشرف کے پاس بیٹھے ہیں ایسے لوگوں کو واپس لینا ملک و قوم کے ساتھ غداری ہے ۔ بہت سے لوگ سفارش کر کے واپس آنا چاہتے ہیں ۔ ہم نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں اس بات پر زور دیا تھا کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ کر جاتے ہیں انہیں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کوئی بھی ڈیل کرے گی ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی ہمیں او پیپلز پارٹی کو پاسداری کرنی چاہیے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ مجھے آئندہ اقتدار ملے یا نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں آئین اور قانون بحال ہو ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سترہویں ترمیم کے تحت وزیر اعظم بننا منظور ہے نہ شوکت عزیز بننا۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پاکستان ضرور جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب جنرل مشرف مجھے نہیں روک سکیں گے میرا اللہ پر پورا ایمان ہے جتنا بھی وقت میں نے گزارا ہے میرے حوصلے اور ارادے مزید پختہ ہوئے ہیں ۔ نواز شریف نے کہا کہ ساڑھے 7 سال بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن میرے عزم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ پختگی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے کارگل ایشو پر مجھ سے خفیہ رابطہ رکھا اس کا ثبوت موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کے جہاز کو اترنے سے روکنے کیلئے رن وے بلاک نہیں کرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر ہائی جیکنگ کا کیس اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی بغاوتوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا اور انہوں نے کہا کہ یہ ملک 16 کروڑ عوام کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ فوجی جرنیلوں کیلئے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے ایٹمی دھماکوں کو روکنے کیلئے 5مرتبہ مجھے فون کیا مگر میں نے یہ فیصلہ ملک و قوم کے بہتر مفاد میں کیا۔