لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملہ پر وفاق المدارس کے علماء میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے

مدینتہ الحجاج میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں سینکڑوں علماء نے مولانا عبدالعزیز کے موقف کی حمایت کر دی، علماء کی وفاقی وزیر پر سوالات کی بوچھاڑ۔ حکومت صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے، آپریشن سے اسلام پاکستان، مدارس اور طالبات کو نقصان پہنچے گا۔ اعجاز الحق

جمعرات 12 اپریل 2007 22:28

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین12اپریل2007 ) لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملہ پر وفاق المدارس کے علماء میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ جمعرات کویہاں مدینتہ الحجاج میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں سینکڑوں علماء نے مولانا عبدالعزیز کے موقف کی تائید کر کے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔ علماء نے وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور حکومت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔

علماء کرام کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے مسجد و مدرسے کیخلاف آپریشن کیا تو ہم مولانا عبدالعزیز کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کے روز مدینتہ الحجاج میں علماء کی مشاورت اس وقت بدمزہ ہوگئی جب علماء نے وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق پر تابڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور کہا کہ اگر حکومت نے لال مسجد، جامعہ حفصہ یا جامعہ فریدیہ پر حملہ کیاتو معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

(جاری ہے)

علماء کرام کا موقف تھا کہ وزارت مذہبی امور نے جو ہمیں خطوط بھیجے اس میں مشاورت کا کہا گیا جبکہ یہاں حکومت کی مداح سرائی ہو رہی ہے۔ علماء نے کہا کہ ہمارے مولانا عبدالعزیز سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن اگر طالبات پر حملہ ہوا تو یہ ملک بھر کے طلباء و طالبات پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ مولانا حسین احمد دیشانی نے وفاقی وزیرمذہبی امور سے کہا کہ آپ نے بیان دیا تھا کہ میں جامعہ حفصہ چلانے کیلئے تیار ہوں حکومت سے 35 افراد پر مشتمل مدرسہ نہیں چل رہا تو 12 ہزار طالبات کا مدرسہ کیسے چلے گا حکومت کو اگر اتنا ہی شوق ہے تو وزات مذہبی امور کے زیر اہتمام نیا مدرسہ بنا کر چلائے جس پر اعجاز الحق نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کی نیت پر حکومت کو شک نہیں حکومت بھی نفاذ اسلام میں مخلص ہے۔

ذرائع کے مطابق قاضی عبدالرشید اور مولانا ظہور احمد علوی نے جب محسوس کیا کہ علماء حکومت کی طرف داری کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ دعا کرائیں بات بگڑ رہی ہے جس پر علماء کرام نے دوبارہ شور مچا دیا کہ ہمیں کیوں بلایا گیا تھا۔ علماء کا موقف تھا کہ ہم نفاذ اسلام کے مطالبے پر مولانا عبدالعزیز کے ساتھ ہیں ہمیں ان کے طریقہ کار سے ا ختلاف ہے ہم سب کی منزل اسلام ہے چاہے ایک سال بعد یا دس سال بعد آئے۔

جبکہ اس موقع پر جڑواں شہروں کے مدارس و مساجد کے علماء کرام و مشائخ عظائم سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور محمد اعجاز الحق نے کہا کہ حکومت لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ بات چیت اور دانشمندی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے لہٰذا لال مسجد کی انتظامیہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسئلے کے حل میں تعاون کرے، حکومتی عملداری قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، آپریشن سے اسلام پاکستان، مدارس اوربالخصوص طالبات کو نقصان ہوگا، حکومت صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے، ملک بھر کے مدارس کی نمائندہ تنظیم ا تحاد تنظیمات المدارس نے بھی لال مسجد کی انتظامیہ کے موقف کی تائید نہیں کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں گرائی جانے والی 7 مساجد کی تعمیر او مدارس کے مسائل کے حل کیلئے ضلعی انتظامیہ سی ڈی اے اورعلماء کرام پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی ہے۔

وفاقی وزیر مذہبی امور نے کہا کہ حکومت مساجد و مدارس کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہی علماء کرام پراپیگنڈہ پر دھیان مت دیں مدارس سے متعلق جتنا دفاع موجودہ حکومت نے کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار آنی جانی چیزہے پاکستان دین کے نام پر بنا ہے یہاں پر اسلام کیخلاف کوئی اقدام نہیں ہونے دیا جائے گا صدرمشرف نے مساجد و مدارس کا عالمی سطح پر بھرپوردفاع کیاکہ یہ دنیا کی واحد این جی او ہے جہاں پر 16 لاکھ طلباء و طالبات کو نہ صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانا اور رہائش بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزار سے زائد مدارس میں طلباء پر تقریباً صرف کھانے کی مد میں 27 ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں جبکہ حکومت سال میں صرف 4 ارب روپے زکوٰة اکٹھی کرتی ہے اور بیرون ملک مخیر حضرات دین اسلام کی ترویج کیلئے چندہ دیتے ہیں۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ آج اتحاد تنظیمات المدارس کے تعاون سے ملک بھر کے 97 فیصد مدارس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں انٹر مدرسہ بورڈ کے قیام سے مدارس کے طلباء کو دینی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈگری اور اسناد بھی مدرسہ بورڈ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے تقریباً ساڑھے چار ہزار مدارس میں طلباء کو دنیاوی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا اوربالخصوص عالمی میڈیا او رپاکستانی قوم کی نظریں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف لگی ہیں جہاں پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ پیدا ہواہے اگست 2004ء میں مولانا عبدالرشید غازی کا کوئی بھی ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں تھا انہیں مقدمہ سے بری کروایا اور آج تک حکومت سے باتیں سن رہا ہوں اسی طرح جامعہ فریدیہ کی منظوری جہاں نواز شریف سے لے کر دی کیونکہ 1988ء کے بعد مولانا عبداللہ نے ہمارے سر پر دست شفقت رکھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا دین اسلام کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے پوراخاندان مدارس اور علماء کرام کی عزت و توقیر کرتا ہے اسی لئے میری کوشش ہے کہ لال مسجد کے مسئلے کو بات چیت سے حل کیا جائے۔ چوہدری شجاعت حسین بھی خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اتحاد تنظیمات المداس کے جلد علماء کرام سے مشاورت کی گی وفد بھجوایا گیا تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔ اعجاز الحق نے تجویز دی کہ علماء کرام مولانا عبدالعزیز اور مولاناعبدالرشید غازی کے پاس جرگہ لے کر جائیں اور انہیں مسئلے کی نزاکت کے بارے میں آگاہ کریں۔

اس موقع پر مولانا قاضی عبدالرشید اورمولانا اشرف علی سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا او حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کو روکنے، سات مساجد کی دوبارہ تعمیر، کمیٹی کا اجلاس بلا کر کمیٹی کو فعال بنانے اور لال مسجد میں علماء کنونشن منعقد کرنے کی تجاویز پیش کیں۔ اس موقع پر اسلام آباد کے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر او دیگر بھی موجود تھے۔