جسٹس افتخارکے خلاف صدارتی ریفرنس کی چھٹی سماعت کے موقع پر کراچی کے وکلاء کا زبردست احتجاج ،پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات

بدھ 18 اپریل 2007 17:34

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اپریل۔2007ء) غیر فعال چیف جسٹس مسٹر پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی چھٹی سماعت کے موقع پرملک بھر کی طرح کراچی میں بھی وکلاء نے زبردست احتجاج کیا اور چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سینکڑوں وکلاء نے پرامن مظاہرہ کیا وکلاء نے وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دیا اور ان سے شدید ناراضگی اور نفرت کا اظہار کیا۔

وکلاء کے عدالتی بائیکاٹ اور احتجاج کے باعث سپریم کورٹ کراچی رجسٹری اور سندھ ہائی کورٹ سمیت تمام عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ جیلوں سے قیدیوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاسکا جبکہ ججوں اور سرکاری وکلاء کی توجہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کی جانب مبذول رہی وکلاء کا احتجاج تین گھنٹے جاری رہنے کے بعد دوپہر تقریباً ایک بجے ختم ہوگیا اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

(جاری ہے)

احتجاجی راستوں پر پولیس اور رینجرز کی بڑی نفری تعینات تھی۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو صبح دس بجے کراچی بار میں وکلاء کی ایک جنرل باڈی اجلاس ہوا جس کی صدارت کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر افتخار جاوید قاضی نے کی جنرل باڈی اجلاس میں عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کرنے اور وزیراعلیٰ ہاؤس تک پرامن احتجاجی مارچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد کراچی بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی سربراہی میں سیشن کورٹ کراچی سے ایک پرامن ریلی نکالی گئی جس میں ایشیا کی سب سے بڑی بار کے سینکڑوں وکلاء نے شرکت کی وکلاء کا جوش و خروش قابل دید تھا۔

وکلاء نے سیاہ جھنڈے حکومت مخالف بینرز اور عدلیہ سے اظہار یکجہتی کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ وکلاء کا جلوس مختلف راستوں سے ہوتا ہوا سندھ ہائی کورٹ پہنچا جہاں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرا برار حسن اور جنرل سیکریٹری منیر الرحمن سمیت سندھ ہائی کورٹ کے درجنوں وکلاء نے کراچی بار کے وکلاء کجا پرتپاک استقبال کیا اس موقع پر کراچی بار کے وکلاء پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا کراچی بار کے وکلاء کے ہمراہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل کے درجنوں وکلاء نے بھی مل کر صدارتی ریفرنس اور چیف جسٹس کو غیر فعال کرنے کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر حکومت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے گئے اور وکلاء کی جدوجہد اور تحریک کو مزید تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے مرکزی دروازے پر وکلاء نے کچھ دیر مظاہرہ کرنے کے بعد سندھ اسمبلی بلڈنگ کی طرف احتجاجی مارچ شروع کردیا اور اس کے ساتھ ہی وکلاء کے احتجاجی راستوں پر فوری طور پر پولیس رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کردی گئی آنسو گیس اور گرفتار ہونے والے مظاہرین کو لے جانے والی پولیس گاڑیوں کا بھی انتظام کرلیا وکلاء کی پرامن احتجاجی ریلی سندھ اسمبلی بلڈنگ کے سامنے سے گزری تو اس موقع پر وکلاء نے حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی جبکہ سندھ اسمبلی بلڈنگ کے بند گیٹ پر بعض وکلاء نے چڑھ کر نعرے بازی کی اس موقع پر سندھ اسمبلی بلڈنگ پر تعینات پولیس اور رینجرز کی نفری الرٹ ہوگئی جس پر وکلاء کے رہنماؤں نے سندھ اسمبلی کے گیٹ پر چڑھے ہوئے وکلاء کو نیچے اتارا وکلاء کی احتجاجی ریلی جب وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھی تو انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے وکلاء کے سرکردہ رہنماؤں سے بات چیت کی اور انہیں گفت و شنید کے ذریعے وزیراعلیٰ ہاؤس کے جانب جانے سے روکا لیکن وکلاء کے رہنماؤں کی یقین دہانی کے وہ پرامن مظاہرہ کریں گے انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کی اجازت دے دی گئی تاہم وزیراعلیٰ ہاؤس پر حکومت سے شدید نفرت کے اظہار کے لیے وکلاء نے زبردست جوش و خروش اور نعرے بازی کا مظاہرہ کیا اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے تصاویری بورڈ اکھاڑ دیئے گئے اور پوسٹرز کو پھاڑ دیا گیا۔

وکلاء نے وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف زبردست نعرے لگائے اور انہیں عدلیہ کا دشمن اور غدار قرار دیا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس پر سینکڑوں وکلاء نے دھرنا دیا جبکہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر افتخار جاوید قاضی اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سابق صدر جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے وکلاء سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں وکلاء کی پرامن اور پرعزم احتجاجی ریلی کے شرکاء کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ حکومتی جبر ناانصافیوں اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف وکلاء کی تحریک روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

حکومت مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود وکلاء کے جوش و خروش کو سرد کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری پر زور دیا کہ وہ اپنا اتحاد، یکجہتی اور جوش و خروش قائم رکھیں ان کی تحریک عدلیہ کے وقار کی بحالی تک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ غیر قانونی صدارتی ریفرنس کو فی الفور غیر مشروط طور پر واپس لے بصورت دیگر وکلاء کی تحریک حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا وکلاء برادری نے وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کا پرامن گھیراؤ کرکے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروادیا ہے اور اگر اب بھی حکومت کے کانوں پر جوں نہ رینگی تو وہ آئندہ ایوان صدر کا گھیراؤ کریں گے۔ وکلاء کے رہنماؤں کے خطاب کے بعد وکلاء کی احتجاجی ریلی ختم کردی گئی۔ وزیراعلیٰ ہاؤس پر وکلاء کے احتجاج کے دوران پولیس رینجرز اور سادہ لباس پولیس کی بھاری نفری نے وزیراعلیٰ ہاؤس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے تمام مرکزی دروازوں پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر راستہ بند کردیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ ہاؤس کے مرکزی دروازے پر رکھے کنٹینر پر چڑھ کر وکلاء کے رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔ دریں اثناء وکلاء کے بائیکاٹ کے باعث سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سندھ ہائی کورٹ سیشن عدالتوں احتساب عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت بری طرح متاثر ہوئی۔ سینکڑوں مقدمات کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ عدالتوں میں موجود ججوں اور عدالتی عملے کی تمامتر توجہ اسلام آباد میں غیر فعال چیف جسٹس کے خلاف جاری صدارتی ریفرنس کی سماعت پر مرکوز رہی۔

جج صاحبان مختلف ذریعوں سے تازہ ترین صورتحال معلوم کرتے رہے جبکہ وکلاء کی احتجاجی ریلی میں بوجوہ سڑیک نہ ہوئے۔ وکلاء کراچی بار اور سندھ ہائی کورٹ میں ٹیلی ویژن کے سامنے براجمان رہے اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کی نشریات دیکھتے رہے ان وکلاء میں سرکاری وکلاء کی بھی بڑی تعداد موجود تھی وکلاء کے بائیکاٹ کے باعث سیشن کورٹ ملیر کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی عدالتوں میں ہو کا عالم رہا اور عدالتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔