جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ سے زیادہ با اختیار ہے، انکوائری کے فیصلہ تک پٹیشن دائر نہیں کی جاسکتی ،وصی ظفر،چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی طرف سے کرنے کا مطالبہ آئین سے ماورا ہے ، چیف جسٹس سمیت کسی کویہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی چیک یا احتساب نہ ہو آئینی درخواستیں دائر کرنے کا مقصد تحقیقات اور آئینی کارروائی کا گلہ گھونٹنا ہے،وزیر قانون کا بیان

جمعہ 20 اپریل 2007 20:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20اپریل۔2007ء) وفاقی وزیر قانون وانصاف محمد وصی ظفر نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ سے زیادہ با اختیار ہے، انکوائری کے فیصلہ تک پٹیشن دائر نہیں کی جاسکتی چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی طرف سے کرنے کا مطالبہ آئین سے ماورا ہے ، چیف جسٹس سمیت کسی کویہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی چیک یا احتساب نہ ہو آئینی درخواستیں دائر کرنے کا مقصد تحقیقات اور آئینی کارروائی کا گلہ گھونٹنا ہے ۔

امور مملکت کی انجام دہی کے سلسلہ میں اسلام میں احتساب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس ضمن میں عدلیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، جمعہ کووزارت قانون سے جاری کئے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی طرف سے آئینی درخواستیں دائر کرنے کا مقصد تحقیقات اور آئینی کارروائی کا گلا گھونٹنا ہے ، جبکہ ان کے وکلاء نے انہیں ممکنہ طورپر یہ مشورہ دیا ہوگا کہ میرٹ پر وہ مس کنڈکٹ کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اسی طرح ریفرنس سے متعلق دستاویزات وصول کرنے سے گریز بھی ایسی ہی وجوہات کی عکاسی کرتا ہے وزیر قانون نے دعوی کیا کہ ان دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے بغیر اختیار کے ٹرانسپورٹ استعمال کی فیول کے استعمال کی جعلی رسیدیں تیارکیں اور اپنے خاندان کیلئے سفر کے اخراجات وصول کئے جن کا انہیں کوئی اختیار نہیں تھا یہ رقم لاکھوں روپے بنتی ہے ، وصی ظفر نے کہا کہ پٹیشن دائر کرنے سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ آئینی احتساب کا سامنا کرنے سے گریز کررہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ عدالت کی سطح پر کسی معاملے کا جائزہ صرف اسی وقت لیا جاسکتا ہے ، جب صدر مملکت کی طرف سے برطرفی کے احکاما ت جاری کئے جائیں ۔

(جاری ہے)

جبکہ کونسل کی طرف سے انکوائری کے مکمل ہونے اور صدر مملکت کی طرف سے عہدے سے ہٹائے جانے کے درمیانی عرصے میں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا ایسا کیا جانا قبل از وقت اور بلا جواز ہوگا انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت دائر کی گئی درخواست پر کارروائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے آئین ، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ چیز آئین کے آرٹیکل 209اور 260C کے مطالعے سے واضح ہو جاتی ہے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر نہ کئے جاسکنے کے حوالے سے موقف گمراہ کن ہے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سمیت کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی مرضی سیجو چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی چیک یا احتساب نہ ہو انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے قواعد 2005ء جو خود چیف جسٹس نے منظور کئے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے سوا کوئی دوسرا جج بھی کونسل کا چیف جج بن سکتا ہے انہوں نے کہا کہ یہ مطالبہ کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کو کرنی چاہیے ، آئین سے ماورا ہے اور ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آئین میں ترمیم نہ کی جائے اسی طرح تعصب کے حوالے سے الزامات کا فیصلہ جج کو کرنا ہوتا ہے اور تعصب کے الزامات کو اس بات کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا کہ کسی جج کو کسی مقدمہ کی تحقیقات سے باز رکھا جاسکے کسی معاملے پر جلد فیصلہ کا مطالبہ بھی بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ کسی معاملے کی اہمیت کا فیصلہ کونسل کو ہی کرنا ہوتا ہے ، انہوں نے کہا کہ کسی کو اپنے خلاف جاری کارروائی کے دوران کام سے روکنے کا مقصد ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تحقیقات یا کارروائی پر اثر انداز نہ ہوسکے ، وزیر قانون نے کہا کہ آرٹیکل 209(5) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر صدر کی رائے میں کوئی جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہو تو صدر کونسل کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیں گے ۔

آرٹیکل 260(1)(c)شق 12میں کہا گیا ہے کہ جج سے مراد سپریم کورٹ کاہائیکورٹ کا جج بمشول چیف جسٹس ہے انہوں نے کہا کہ جب ان دو آرٹیکلز کو آرٹیکل 180کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس طرح بنے گا کہ کسی وقت اگر چیف جسٹس آف پاکستان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے کسی بھی دیگر وجہ سے قاصر ہو تو صدر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کے طورپر کام کرنے کیلئے مقرر کرسکتے ہیں اس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ آرٹیکل 209 کے تحت چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے اور جب چیف جسٹس ذمہ داریاں انجام دینے سے قاصر ہوں تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر کیا جاسکتا ہے اور جب چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہوں تووہ یقینی طورپر ذمہ داریاں انجام نہیں دے سکتا اس کے علاوہ چیف جسٹس کو ججز (لازمی رخصت )آرڈر 1970ء جسے 1975ء کے ایکٹ میں جواز فراہم کیا گیا ہے، کے تحت جبری رخصت پر بھیجا جاسکتا ہے بند کمرے میں سماعت ، سپریم جوڈیشل کونسل (تحقیقات کے ضابطہ ) قواعد 2005ء کے قاعدہ 13 کا حصہ ہے اور بند کمرے میں سماعت کے حوالے سے فیصلہ صرف کونسل ہی کرسکتی ہے ، وزیر قانون نے کہا کہ مذکورہ بالا نکات کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 211ء میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ کونسل کی کارروائی کیخلاف کوئی درخواست پاکستان کی کسی عدالت میں زیر سماعت نہیں لائی جاسکتی ، آرٹیکل 209(8) میں مزید واضح ہو جاتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ سے زیادہ با اختیار ہے کیونکہ کونسل چیف جسٹس سمیت تمام ججز کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کرتی ہے ، وصی ظفر نے کہا کہ آئینی درخواست دائر کرنے کا مقصد یا تو چیف جسٹس کی طرف سے آئینی احتساب کا سامنا کرنے سے گریز یا ان کے وکلاء کی طرف سے غلط مشورہ ہے جو پورے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔