چیف جسٹس بحال ہو گئے تو اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کیخلاف تحریک چلانے کیلئے کچھ بھی نہیں رہیگا ،مولانا فضل الرحمن،جنرل مشرف نے عدلیہ پر جو شب خون مارا ہے اس سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے،بینظیر چھپ چھپ کر ڈیل کی بجائے ہماری طرح کھل کر مذاکرات کریں ،لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 21 اپریل 2007 22:15

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اپریل۔2007ء) متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ پر جو شب خون مارا ہے اس سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔بینظیر چھپ چھپ کر حکومت سے ڈیل کی بجائے ہماری طرح کھل کر مذاکرات کریں ۔ بلوچستان حکومت سے علیحدہ ہونے کیلئے تیار ہیں لیکن اپوزیشن ہمیں انتہائی قدم اٹھانے کی طرف لیجانے کی بجائے پہلے ابتدائی قدم تو اٹھائے اور حکومت کیخلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائے ۔

چیف جسٹس بحال ہو گئے تو اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے کچھ بھی نہیں رہیگا ۔ حکومت نے کشمیر کے بارے میں مذاکرات اور تجاویز کے حوالے سے پارلیمنٹ اور ایم ایم اے سے کوئی مشاورت نہیں کی ۔

(جاری ہے)

جامعہ حفصہ کا معاملہ حکومت کا اپنا پیدا کردہ ہے جسکا مقصد امریکہ اور مغربی طاقتوں کو بتانا ہے کہ جنرل مشرف کا مزید اقتدار میں رہنا نا گزیر ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مسلم ٹاؤن ابو بکر بلاک میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے حافظ ریاض درانی،مولانا امجد خان ،بلال میر اور دیگر بھی موجود تھے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں آج بھارت روانہ ہو رہا ہوں اور میری کوشش ہو گی کہ وہاں پر حکومتی نمائندوں سے بھی ملاقات کروں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید بہترہوں ۔

بھارت اپنی پارلیمنٹ اور عوام کو کشمیر کے بارے میں ہونیوالے مذاکرات کے حوالے سے اعتماد میں لیتا ہے اور اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہے لیکن پاکستان میں سب کچھ اسکے برعکس ہے ۔ جنرل مشرف کو چاہیے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں ،پارلیمنٹ اور عوام کو اعتمادمیں لیں اور خصوصی طور پر کشمیری عوام کو بھی اس میں شریک کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل بنائیں اور پھر حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائی جائے ۔ جب میاں نواز شریف نے اے پی سی کا اعلان کیاتھا تو ہم نے اس میں بھی شرکت کا اعلان کیا لیکن اس میں دو ماہ لگ گئے اور یہ دونوں جماعتیں کسی حتمی حکمت عملی کی طرف نہ بڑھ سکیں اور جب تاریخ کا اعلان ہوا تو ملک میں آئینی بحران کھڑا ہو گیا ہم نے اس وقت بھی تجویز دی تھی کہ اے پی سی ہونی چاہیے تاکہ ہمارے پاس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے کوئی مشترکہ ایجنڈا ہو کیونکہ اگر اب چیف جسٹس بحال ہو گئے تو اپوزیشن کے ہاتھ میں تحریک چلانے کیلئے کوئی ایجنڈ ا نہیں ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ جب اے آر ڈی نے وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بات کی تھی تو ہم نے انہیں بتایا تھا کہ ہمارے پاس تعداد مکمل نہیں اس لئے یہ تحریک لانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن اے آر ڈی کے بضد ہونے کی وجہ سے ہم نے اس تحریک میں بھی انکا ساتھ دیا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم بلوچستان کی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں تو اس کے لئے کوئی ایسی حکمت عملی ہونی چاہیے کہ ق لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد اپوزیشن سے ملکر حکومت بنائی جا سکے ۔

بلوچستان کی حکومت سے علیحدہ ہونا آخری ااقدام ہے پہلے اپوزیشن ابتدائی اقدم تو اٹھائے ۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں وکلاء افتخار محمد چوہدری سے جس یکجہتی اظہار کر رہے ہیں اس سے جنرل مشرف کی مقبولیت کو نقصان ہو رہا ہے جنرل مشرف نے یہ اقدام اپنے ذاتی مفاد کیلئے اٹھایا تھا جسکا مقصد سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ چار سالوں کے اپنے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے سات سالہ دور میں ایسے اقدام کئے ہیں جس سے انتہا پسندوں کو انتشار دلایا گیا اورجسکا مقصد تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنا اور امریکہ او رمغرب کی سپورٹ لینا تھاجو ختم ہوتی جارہی ہے ۔جامعہ حفصہ کا معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا یہ مدرسہ اگر اسلام آباد کی بجائے کہیں اور ہوتا تو اسکے بارے میں کسی کو پتہ بھی نہ چلتا ۔

قبائلی علاقوں میں بھی اس طرح کی فضاء پیدا کی جارہی ہے اور صوبہ سرحد کے امن و امان کو خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ سرحد کی کارکردگی تمام دیگر صوبوں سے بہتر رہی ہے اور حکومت اس کارکردگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اپنے گھر پر ہونیوالے راکٹ حملے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ راکٹ کس نے فائر کیا ہے پولیس اس کی تفتیش کر رہی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صوبہ سرحد میں حکومت کے خلاف ماضی میں ہونیوالے واقعات کا تسلسل ہو لیکن فی الحال اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان ڈیل کی خٰبروں سے جنرل پرویز مشرف کو نہیں اپوزیشن کو نقصان ہوا ہے اس لئے ہم بینظیر بھٹو کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ چھپ چھپ کر حکومت سے مذاکرات کرنے کی بجائے ہماری طرح کھل کر مذاکرات کریں ۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ مل گئی یا اس نے گرینڈ الائنس میں شمولیت سے انکار کر دیا تو پھر بھی گرینڈ الائنس ضرور بنے گا لیکن ہماری کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اس میں شریک ہو ۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر کا ہمارے ساتھ نہ بیٹھنے کا مقصد امریکہ اور مغرب کو یہ بتانا ہے کہ میں جنرل مشرف سے زیادہ روشن خیال ہوں اور مغرب کے مقاصد جنرل مشرف سے بہتر انداز میں پورے کر سکتی ہوں ۔ جنرل مشرف کے صدارتی انتخابات کے بارے میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہو کر حکمت عملی بنائیں ۔ ایک سوال کے جواب میں اگر آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی نہ ہوئی تو ہم سرحد میں ایک دفعہ پھر حکومت بنانے کے علاوہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی بھرپورکامیابی حاصل کریں گے ۔