سپریم کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کیخلاف دائر رٹ کی سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی،میڈیا پر وہ افراد بحث کررہے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کھول کر نہیں دیکھا لیکن آئین کی تشریح کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، نام نہاد دانشوروں کے خلاف کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے، جسٹس جاوید اقبال کے ریمارکس

پیر 23 اپریل 2007 11:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23اپریل۔2007ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس رانا بھگوان داس کی بطور غیر مسلم قائم مقام چیف جسٹس کے تقرری کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کی درخواست پر سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی ہے جبکہ مولوی اقبال حیدر کی قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کے حق میں دی جانے والی درخواست کی سماعت بھی ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے دوہفتوں کے لئے ملتوی کردی ہے، جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی ایک اہم مسئلہ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اٹارنی جنرل کو نوٹس نہ دیتے اور نہ ہی وضاحت طلب کرتے میڈیا میں وہ افراد بحث کررہے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کھول کر دیکھا ہی نہیں لیکن آئین کی تشریح کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اس وقت عدالتوں میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے نام نہاد دانشور جو بنے بیٹھے ہیں ان کے خلاف کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے تاکہ وہ لوگ آگے آئیں جو آئین کو سمجھتے ہیں اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان درخواست گزاروں کو ہورہا ہے جو صبح سے شام تک اپنے مقدمات کی شنوائی کا انتظار کرتے رہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے دنوں کسی نے ٹیلی ویژن پر کہا کہ آئین میں کیمرہ پروسیڈنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیمرہ پروسیڈنگ میں کیا خرابی ہے تو انہوں نے کہا کہ عدالت کے اندر کیمرہ لانا منع ہے، انہوں نے کہا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ حکومت کو یہ آکریہ موقع دے رہے ہیں اس کے بعد کوئی مہلت نہیں دیں گے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی تاخیر برداشت کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس سوموار کے روز جسٹس رانا بھگوان داس کی بطور غیر مسلم قائم مقام چیف جسٹس تقرری کے حوالے سے شاہد اورکزئی کی درخواست کی سماعت کے دوران ادا کئے۔ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس میاں شاکر الله جان پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے مقدمے کی سماعت کی شاہد اورکزئی کے علاوہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ناہیدہ محبوب الٰہی پیش ہوئیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں رات ہی کو نوٹس ملا تھا اس لئے وہ تیاری نہیں کرسکی ہیں اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اپ کو تمام ہدایات رات کو ہی ملتی ہیں سارا دن کیا کرتے ہیں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں مزید وقت دیا جائے اور کم از کم چار ہفتے دیئے جائیں اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ یہ بہت زیادہ نہیں ہیں کیا۔ درخواست گزار نے کہا کہ اٹارنی جنرل آئین کی رو سے صلاحیت اور قابلیت میں سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہوتا ہے آپ میرے ساتھ یہاں آئین پر مکالمہ کرتے ہیں اور یہاں ہی جواب دیتے ہیں اگر چار ہفتے چاہیں تو یہ اٹارنی جنرل کی صلاحیت کے منافی بات ہے۔

اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ یہ درست ہے لیکن آپ کی بعض باتوں کے جواب مشکل ہیں اس پر درخواست گزار نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس کیس کو لائیٹلی لے رہے ہیں جبکہ میری نظر میں 24 مارچ کے بعد سپریم کورٹ تمثیلاً 16 افراد کی جماعت ہے جو بظاہر نماز پڑھ رہی ہے مجھے اس نماز پر اعتراض ہے میری نظر میں مجموعی کارروائی آئین کے مطابق نہیں ہے اس وقت کچھ اور معاملات بھی چل رہے ہیں جس پر عوام کا پیسہ خرچ ہورہا ہے اور اس مقدمے کے نتیجے میں تمام کارروائی غیر موثر ہوسکتی ہے چار ہفتوں کی مہلت سے عوام کے پیسوں کا نقصان ہوگا انہوں نے مزید عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پی ٹی وی کے خلاف بھی توہینع دالت کی درخواست دائر کی ہوئی ہے اور کونسل کی کارروائی کا تمسخر اڑا رہے ہیں تاہم عدالت نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔

مولوی اقبال حیدر نے بھی ایک درخواست قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کے حق میں دی ہوئی تھی جس کی سماعت کے وقت درخواست گزار موجود نہیں تھے تاہم عدالت نے ان کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دونوں درخواستوں کی مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔