چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت 2 مئی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی

منگل 24 اپریل 2007 15:51

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار 24 اپریل 2007) سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت فریقین مقدمہ کی باہمی رضامندی سے 2 مئی بروز بدھ صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی ہے کہ جب تک سپریم کورٹ چیف جسٹس کی درخواست کا فیصلہ نہیں کر لیتی اس وقت تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روک دی جائے سماعت کے دوران 3 نکات پر بحث کی گئی جن میں 9 مارچ کو چیف جسٹس کو غیر فعال بنانا، انہیں جبری رخصت پر بھیجنا اوران کے خلاف جنرل مشرف کی جانب سے صدارتی ریفرنس دائر کرنا شامل ہیں۔

چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ کے چیف جسٹس کی جبری رخصت کے حوالے سے دلائل ابھی جاری تھے کہ وقت ختم ہونے کی وجہ سے مزید سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

صدارتی ریفرنس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ افتخار حسین چوہدری اورسندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد پر مشتمل 5 رکنی سپریم جودڈیشل کونسل نے کی۔

جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے علی احمد کرد ایڈووکیٹ، حامد خان، چوہدری اعتزاز احسن، قاضی محمد انور، جسٹس (ر) طارق محمود اورمنیر اے ملک ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل پاکستانی مخدوم علی خان، وسیم سجاد، ڈاکٹر خالد رانجھا، راجہ عبدالرحمن ایڈووکیٹ، عارف چوہدری ایڈووکیٹ اور امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے آئین کے آرٹیکل 209، 270(A) اور 175(3) کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران 3 نکات پر بحث کی جن میں 9 مارچ کو چیف جسٹس کو غیر فعال بنانا، انہیں جبری رخصت پر بھیجنا اوران کے خلاف جنرل مشرف کی جانب سے صدارتی ریفرنس دائر کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا صدر پاکستان اور سپریم جوڈیشنل کونسل کے پاس درج بالا آئین کی شقوں کے تحت اختیارات حاصل ہیں کہ وہ چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک سکیں اس حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل نہ تو چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی صدر پاکستان کسی بھی جج کو معطل کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر چیف جسٹس آف پاکستان کو جنرل رخصت پر نہیں بھیج سکتا ابھی ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقف ختم ہو جانے کی وجہ سے تمام متعلقہ فریقین کی رضامندی سے ریفرنس کی مزید سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکلاء بیرسٹر اعتزاز احسن، منیر اے ملک، حامد علی خان اور جسٹس (ر) طارق محمود نے صحافیوں سے گفتگو کی۔

اس دوران چوہدری اعتزاز احسن نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی طرف سے حصول انصاف کی پٹیشن قائم مقام چیف جسٹس کے سپرد کر دی گئی اوراس سلسلے میں سماعت کے لئے کوئی تاریخ نہیں دی گئی اور اسے غیر معینہ مدت تک مکمل کر دیا گیا اس لئے ہم نے سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دی کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کی جائے تاہم اس سلسلے میں ہماری درخواست کو مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم پہلے اپنی طرف سے لگائے گئے اعتراضات پر بحث مکمل کریں جبکہ اس دوران جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ کونسل کی سماعت میں چیف جسٹس کو زبردستی چھٹیوں پر بھیجنے کے معاملے پر بحث ہوئی ہے اور چوہدری اعتزاز احسن نے دلائل دیئے، طارق محمود نے بتایا کہ چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں زبردستی چھٹی پر بھیجنے کا قانون وقتی ضرورت کے مطابق بنایا گیا اور جب وہ ضرورت پوری ہوئی تو اس کو ختم کر دیا اور اسی قانون کے تحت چیف جسٹس کو زبردستی گھر بھیجا گیا جبکہ کونسل کے اجلاس میں کونسل کے اختیارات کے بارے میں بھی بحث ہوئی اور جو حکم 9 مارچ کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے جاری کیا گیا وہ بھی بحث میں شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے وکیل نے جوڈیشل کونسل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کونسل ایک تحقیقاتی کمیشن ہے وہ کوئی بھی حتمی حکم نہیں دے سکتی اس دوران دلائل جاری ہی تھے کہ کونسل نے سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی۔ حامد علی خان نے کہا کہ عدالت میں سپریم کورٹ میں پٹیشن پر آنے والے فیصلے کے بارے میں آگاہی دی گئی ہم نے کونسل کی سماعت ملتوی کرنے کیلئے تحریری طورپر درخواست دی جس کو مسترد کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نظر میں کونسل کا ماحول تب اچھا ہوگا جب کونسل میں انصاف کرنے والے ججز موجود ہوں۔ منیر اے ملک نے کہا کہ کونسل کے اجلاس میں تین نکات پر بحث کی گئی اور ہمارے وکلاء ہمت اور حوصلے سے تھے جن ججوں کا متعصبانہ رویہ ہے وہ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں۔