چیف جسٹس کے خلاف درخواست صدر مشرف کے وکیل نے نہیں دی۔ وصی ظفر

جمعرات 3 مئی 2007 11:20

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار03 مئی2007) وفاقی وزیر قانون و انصاف وصی ظفر نے کہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی پٹیشن کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کے لیے درخواست ’صدر مشرف کے وکیل نے نہیں دی ہے۔ غیر ملکی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہاکہ یہ درخواست وکیل ابراہم ستی نے دی ہے جبکہ صدر جنرل مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ ہیں۔

تاہم وہ یہ وضاحت نہ کر سکے کہ ابراہیم ستی کس کی پیروی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں کئی فریق ہیں جن میں صدر، وزیر اعظم، حکومت پاکستان، سپریم جوڈیشل کونسل اور دیگر شامل ہیں اور ابراہیم ستی ’کسی اور کے وکیل ہیں لیکن جنرل مشرف کے نہیں۔‘تاہم اس سے پہلے ملنے والی اطلاعت کے مطابق ابراہیم ستی نے یہ درخواست شریف الدین پیرزادہ کی ہدایت پر ہی دائر کی تھی۔

(جاری ہے)

قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے جسٹس افتخار محمد چودھری کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو سات مئی سے اپنی کارروائی شروع کرے گا۔ پانچ رکنی بینچ جسٹس جاوید بٹر، جسٹس ناصر الملک، جسٹس راجہ فیاض، جسٹس چودھری اعجاز اور حامد علی مزرا پر مشتمل ہے۔دائر کردہ پٹیش میں کہا گیا ہے کہ توقع تھی کہ قائم مقام چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے لیے تمام ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیں گے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چار جونیئر ججوں اور ایک ایڈہاک جج پر مشتمل بینچ پر کئی اعتراض اٹھائے جا سکتے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ چار جونیئر ججوں اور ایک ایڈہاک جج پر مشتمل بینچ پر کئی اعتراض اٹھائے جا سکتے ہیں۔صدر مشرف کے وکلاء نے کہا کہ اگر قائم مقام چیف جسٹس نے سینئر ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا ہوتا تو وہ فل کورٹ بینچ کا مطالبہ نہ کرتے کہا گیا ہے کہ پانچ سینئر ججوں، جن میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس محمد نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس فلک شیر اور جسٹس شاکر اللہ جان، کو نظر انداز کرنے کی وجوہات ان کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر قائم مقام چیف جسٹس نے سینئر ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا ہوتا تو وہ فل کورٹ بینچ کا مطالبہ نہ کرتے۔بدھ کوسپریم جوڈیشل کونسل نے ’معطل’ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ صدراتی ریفرنس کی سماعت اس وقت تک روک دی جائے جب تک سپریم کورٹ ان کی پیٹشن کا فیصلہ نہیں کر دیتی۔

متعلقہ عنوان :