مذاکرات کی آڑ میں جامعہ حفصہ پر حملہ کیا گیا تو نقصان کی ذمہ دار حکومت ہو گی ۔ مولانا عبدالعزیز۔۔ اگر خفیہ ایجنسیوں نے ہمارے طلباء کے اغواء کا سلسلہ بند نہ کیا تو ہم ان کے اہلکاروں کو لال مسجد میں پکڑ کر بٹھا لیں گے، مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہم اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں، حکومت فوری طور پر ملک میں فحاشی و عریانی کے اڈے ختم کرے، ہم ملاؤں کی نہیں عدل و انصاف اور مساوات پر مشتمل اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں، لال مسجد کے خطیب کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب

جمعہ 4 مئی 2007 17:26

اسلا م آباد(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار04 مئی2007) وفاقی دارالحکومت کی لال مسجد کے خطیب مولانا محمد عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اگر ہمارے طلبا کو ماورائے قانون خفیہ ایجنسیاں اغواء کرتی رہی ہیں تو لال مسجد میں خفیہ ایجنسیوں کے آنے والے اہلکاروں کو پکڑ کر یہاں بٹھا لیں گے ،مذاکرات کی آڑ میں جامعہ حفصہ پر حملہ کیا گیا تو نقصان کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی ،مذاکرات کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں، حکومت فوری طور پر ملک میں فحاشی و عریانی کے اڈے ختم کرے اور عوام ملک سے منکرات کے خاتمے لیے میدان میں نکل آئیں،بعض لوگ ہماری تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہمارے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں، ہم ملاوٴں کی نہیں عدل وا نصاف،مساوات پر مشتمل اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں ہماری تین ماہ کی تحریک سے درجنوں فحاشی کے اڈے بند ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں لال مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔نماز جمعہ کے اجتماع سے مرکزی جامع مسجد کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی نے بھی خطاب کیا۔مولانا محمد عبدالعزیز نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام میں سختی اور نرمی دونوں موجود ہیں، اللہ فرماں برداروں کیلئے رحمان ہے تو ظالموں ا ور جابروں کیلئے سخت پکڑ کرنے والا بھی ہے ،اس طرح سے اسلامی حکومت کی بھی یہی صفات ہونی چاہئیں۔

انہوں نے کہ کہ ہم سے جو بھی مذاکرات کے لیے آیاہماری طرف سے پیار سے بات کی گئی اور جو حملے کی بات کرے گا تو ہم بھی حملے کی بات کریں گے ۔ہم اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ہم شہادت قبول کرلیں گے مگر پسپائی اختیار نہیں کریں گے ۔انٹرنیٹ پر فحاشی وعریانی کی تصاویر دی جاتی ہیں ۔ایک موبائل کمپنی فرینڈ شپ کے نام پر فحاشی کو فروغ دے رہاہے ۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فحاشی و عریانی ختم کرے ۔آج غریب کا جینا مشکل ہو گیا ہے ۔پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔آج جامعہ حفصہ کو غیر قانونی کہا جاتا ہے، اگرا سلامی نظام ہوتا تو فحاشی کے اڈے غیر قانونی ہوتے ۔ایک جامعہ حفصہ کی چند فٹ جگہ پر چیخ و پکار کر رہے ہیں ،مساجد کو غیر قانونی کہا جارہا ہے جبکہ فحاشی کے اڈوں کو قانونی کہا جاتا ہے ۔

حکومت نے ہر سیکٹر میں سکول کالجز کیلئے جامعہ حفصہ کی زمین سے بڑی زمینیں دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحریک کی وجہ سے درجنوں فحاشی کے اڈے ختم ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ماورائے قانون گرفتار طلباء کو فی الفور رہا کیا جائے اور اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو لال مسجد میں آنے والے ایجنسیوں کے اہلکاروں کو یہاں بٹھا لیں گے ۔ہماری تحریک پورے ملک میں پھیل چکی ہے صوبہ سرحد میں اسلامی نظام کی تحریک پیدا ہو چکی ہے ۔

اس لئے حکومت مذاکرات کی ّآڑ میں حملے کی سازش نہ کرے ورنہ نتائج کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔علامہ عبدالرشید غازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلباء و طالبات کی تحریک کی ابتداء شہید کی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر تھا ۔مگراس تحریک کے پیچھے ملک کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے۔ملک میں پھیلی ہوئی فحاشی ،عریانی اور ملک جس نظام کے لیے بنایا گیا تھا اس سے پہلوتہی برتی گئی ۔

ملک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کواغواء کررہی ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ عورتوں کو اٹھا کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ایف بی آئی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔حد تویہ ہے کہ اسلامی پڑوسی ملک کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کفار کے حوالے کردیاگیا۔یہ تحریک مدارس کے ساتھ حکومت کے جانبدار نہ رویے کا بھی نتیجہ ہے۔

اگر اعجاز الحق مدرسوں کے خیرخواہ تھے تواہل مدارس تحفظ مدارس دینیہ کنونشن کیوں منعقد کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مساجد کی شہادت کے بعد طالبات کی طرف سے لائبریری کو یر غمال بنا کر حکومتی رٹ چیلنج کرنے کا واویلا کیا گیا ۔ مجھے چنددوستوں نے لاپتہ افراد کے لئے آوازاٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایاحالانکہ جس گھر کاکوئی فرد لاپتہ ہوجائے ان میں سی کسی ایک خاندان کی حالت تو جاکردیکھیں کہ انکی زندگی کیسے گذررہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج مولوی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مجھے مسجد یا مدرسہ مل جائے تو اسے زندگی کا مقصد حاصل ہوگیاہے ۔وہ اسی کو سب کچھ سمجھ لیتاہے۔اگر مولانا عبدالعزیز فحاشی کے خاتمے اور نفاذ اسلام کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔میں ان چندمولویوں سے پوچھتا ہوں کہ حضور کیا صرف امامت کرتے تھے یا صرف درس و تدریس کرتے تھے ،کیاانہوں نے معاشرے کی بہتری کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔

عبدالرشید غازی نے کہاکہ طالبات کے اقدام پر ہر طرف سے شور مچا اور چندلوگوں نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دینے والوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس ملک میں اسلامی نظا م نافذ کردیاجائے ۔ہم نے نظام کی تبدیلی کی بات کی تو ہر طرف سے شور مچ گیا ،کراچی میں الطاف حسین نے بھی ریلی نکالی حالانکہ ہم نے تحریک میں الطاف کا نام تک نہیں لیاتھاحقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین جیسے جرائم پیشہ افراد کو موجودہ نظام زیادہ تحفظ فراہم کرتاہے ،اس لیے ان کو تکلیف ہے کہ یہ نظام نہ رہا تووہ اور انکا ٹولہ کہاں جائے گا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ مولوی بھی آسودہ حال ہیں جبکہ غریب کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ہمیں اپنے مسجدوں سے نکل کران غریب افراد کے دکھوں کو سمجھنا ہو گا ۔بہت سارے لوگ ہمیں ایجنسیوں کا کارندہ کہتے ہیں، بے نظیر نے جنرل مشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ وہ حملہ کیوں نہیں کرتے ،میں نے جواب دیا کہ بے نظیرکی حکومت نے مولانا عبداللہ شہیدکو یہاں لال مسجد سے نکالنے کا سارا زور صرف کیا مگر وہ ناکام رہی۔

تو جنرل مشرف کے لیے بھی وہی مجبوریاں ہیں جو بے نظیرکی حکومت کو درپیش تھیں ۔اس سے قبل بھی ہمارے بزرگوں جیسے مفتی احمدالرحمن ،مفتی نظام الدین شامزی شہیداور مفتی جمیل شہید جیسے اکابرین کو بھی انہی لوگوں نے ایجنسیوں کاکہا۔ہم کہتے ہیں کہ کسی کو طریقہ کار سے اختلاف ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پر اس قسم کے لغواور بے ہودہ الزامات لگائے جائیں۔

۔این جی اوزکی پریشانی یہ ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کی بات ساٹھ سالوں سے کررہی ہیں ، ان کے پاس ساٹھ عورتیں بھی نہیں ہیں، جبکہ ہمارے پاس تو ساڑھے چھ ہزار طالبات ہیں ،جو ایک مطالبہ کررہی ہیں ، کیاانکا مطالبہ غلط ہے ۔کیا ان ساڑھے چھ ہزار خواتین کے کوئی حقوق نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملاوٴں کی نہیں عدل وا نصاف اورمساوات پر مشتمل اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں۔ہاں اگر ہمارے مطالبات شرافت سے نہ مانے گئے تو پھرممکن ہے کہ ملاوٴں کی حکومت آجائے ۔