چیف جسٹس کا استقبال اورایم کیو ایم کی ریلی،کراچی میدان جنگ بن گیا۔پورا شہر فائرنگ سے گونج اٹھا، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور (ن) لیگ کے 8کارکنوں اور ایدھی کے ڈرائیور سمیت 28 ہلاک ۔ایم کیوایم کے 8 کارکن اغواء، درجنوں گاڑیاں، پٹرول پمپ،کنٹینرز، ریل کا ڈبہ نذر آتش،شہر میں بدترین ٹریفک جام۔ہر طرف ہو کا عالم، لوگ سڑکوں پر ہی گاڑیاں چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب بھاگ نکلے،پی پی پی کی رہنما شیریں رحمان کی گاڑی پر حملہ، محافظ زخمی، گاڑی تباہ،3ہزار سے زائد سیاسی کارکن گرفتار،ریلوے اسٹیشنوں پر بھی فائرنگ کے واقعات،ٹرینوں کی آمدورفت معطل،پتھراؤ، جلاؤ ، گھیراؤ۔ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہونے سے روکنے پر وکلاء کا احتجاجی مظاہرہ ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او سے جواب طلب کر لیا

ہفتہ 12 مئی 2007 13:20

کراچی (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار12 مئی2007) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد اور ایم کیو ایم کی ریلی کے موقع پر پورا شہر میدان جنگ بنا رہا، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور (ن) لیگ کے 8کارکنوں اور ایدھی کے ڈرائیور سمیت 28 ہلاک ، درجنوں زخمی، شہر فائرنگ سے گونج اٹھا ، درجنوں گاڑیاں ،پٹرول پمپ نذر آتش ، سڑک پر کھڑی کینیٹرز کو آگ لگا دی گئی، پٹرول پمپس میں توڑ پھوڑ ، مختلف ریلوے سٹیشنوں پر فائرنگ کے بعد ٹرینوں کی آمدورفت معطل ، پورے شہر میں بدترین ٹریفک جام ، ہر طرف افراتفری کا عالم ، لوگ گاڑیاں چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگ نکلے، پیپلز پارٹی کی رہنما شیریں رحمان کی گاڑی پر حملہ، محافظ شدید زخمی ، گاڑی کو نقصان پہنچا،کریک ڈاؤن میں 3ہزار سے زائد سیاسی جماعتوں کے رہنمااور کارکن گرفتار،ایم کیو ایم کے 8کارکنوں کو اغواء کر لیا گیا۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطا بق ہفتے کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد اور ایم کیو ایم کی ریلی کے موقع پر پورا شہر میدان جنگ بنا رہا۔ مختلف علاقوں میں دنگا فساد ہوتا رہا اور دو طرفہ فائرنگ سے ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے 8کارکنوں اور ایدھی کے کارکن سمیت 28افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ شاہراہ فیصل ، ملیر، کالا بوٹ، ڈگ روڈ ، پی آئی اے کالونی ، عائشہ باوانی ، بلوچ کالونی ،سو کوارٹرز اور ایئر پورٹ سے ملحقہ علاقوں میں دن بھر شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔

مختلف علاقوں میں درجنوں گاڑیوں، پٹرول پمپ اور سڑک پر کھڑے کنٹینرز کو نذر آتش کر دیا گیا۔ شہر میں افراتفری کا عالم رہا اور لوگ سڑکوں پر ہی گاڑیاں کھلی چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر بھی شدید فائرنگ کے واقعات پیش آئے جس کے باعث شہر میں ٹرینوں کی آمدورفت معطل کر دی گئی ۔ ادہر ملیر کے علاقے میں پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی شیری رحمان کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے باعث ان کا محافظ شدید زخمی ہو گیا جبکہ گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا تاہم اس دوران شیری رحمان مکمل طور پر محفوظ رہیں۔

ڈگ روڈ پر ٹرین کے ڈبے کو بھی مسلح افراد نے آگ لگادی۔ملیر میں ایدھی ایمبولینس کا ڈرائیور بھی ان ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ ادہر ایم کیو ایم ذرائع نے کہا ہے کہ ملیر کے علاقے میں فائرنگ سے ان کے 4کارکن جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ اس دوران 8کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ لانڈھی کے علاقے ون ڈی ایریا میں چھوٹی مارکیٹ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سنی تحریک کا عہدیدار ہلاک ہو گیا۔

پیر آباد میں بناری چوک پر متحدہ قومی موومنٹ کی ریلی پر پتھراؤ کیا گیا جبکہ عبداللہ کالج کے قریب عوامی نیشنل پاری کی ریلی پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ جس سے دونوں گروپوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اس موقع پر فائرنگ بھی کی گئی جس سے اس اے ایس آئی محمد اشرف زخمی ہو گیا۔ سائٹ ضیاء موٹرز پر 2پولیس اہلکاروں اے ایس آئی احسان اور پولیس کانسٹیبل اکبر کو مسلح افراد نے زخمی کرنے کے بعد اسلحہ چھین لیا۔

رات کو ماڈل ٹاؤن کالونی میں زخمی ہونے والے مزید 4 افراد کو پرائیویٹ ہسپتال سے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پر 2 افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ اس واقعہ میں مسلم لیگ (ن) کے کارکن اصغر علی سمیت 2 افراد ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے ہیں ۔ شہر میں ہ رطرف سخت کشیدگی رہی جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ادہر 24 گھنٹوں کے دوران مختلف علاقوں سے مجموعی طور پر3 ہزار سے زائد اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

شہر میں کشیدگی اور سخت سیکیورٹی انتظامات کے باعث شہر کے تمام مصروف کاروباری مراکز میں بدترین ٹریفک جام رہی۔ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں گھنٹوں سڑکوں پر کھڑی رہیں ۔ ادہر نقص امن کے خدشے کے پیش نظر گرفتاریوں کے علاوہ شہر بھر میں تمام پٹرول پمپس کو بند کر دیا گیا تھا اور اس کے باعث پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی ۔

متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں دونوں مظاہرین زخمی ہو گئے جبکہ ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ادہر ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل نہ ہونے دینے پر وکلاء نے شدید احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او سے جواب طلب کیا ہے۔

مال روڈ اور دیگر علاقوں میں رات او ردن کو شدید فائرنگ ہوتی رہی۔ بعض مقامات پر مسلح افراد سڑکوں پر بھی نکل آئے اور فائرنگ کی۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس فائرنگ کے سلسلے کو رکوانے میں مکمل طو رپر ناکام ہو گئی ہے جبکہ زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں تاحال سڑکوں پر بکھری پڑی ہیں۔ صبح کے وقت شہری معمولات زندگی میں گہما گہمی دیکھنے میں آئی تاہم فائرنگ کے واقعات کے بعد علاقے ویران ہو گئے۔

متعدد مارکیٹس اور دکانیں کشیدگی کے باعث بند رہیں ۔ صورت حال کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے کم و بیش 15 سو سے 3 ہزار اضافی سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دئیے گئے تھے۔ اسلام آباد میں صدر جنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی کی صورتحال پر کنٹرول کے لئے رینجرز کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اتوار کو ایم کیو ایم کی ریلی کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک ہو نے والوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی ہے جبکہ اس دوران 83 زخمی ہو ئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔