کراچی میں آگ اور خون کے کھیل نے 31 افراد کی جان لے لی، 115 سے زائد زخمی،واقعہ میں 17 افراد جاں بحق ہوئے، وزیر داخلہ،مشتعل افراد نے پٹرول پمپ، کئی گاڑیاں اور موٹر سائیکل نذر آتش کر دیئے، زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا، کئی کی حالت تشویشناک، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ، کئی افراد نے تڑپتے ہوئے جان دیدی، سڑکیں بند ہونے کے باعث انہیں ہسپتال نہ لے جایا جا سکا، فائرنگ کے وقت پولیس اہلکار غائب ہوگئے، عینی شاہدین،حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے کراچی میں رینجرز کو تعینات کر دیاگیا، چیف جسٹس سندھ بار سے خطاب کئے بغیر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔اپ ڈیٹ

ہفتہ 12 مئی 2007 23:12

کراچی+ اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12مئی۔ 2007ء) کراچی میں آگ اورخون کے کھیل نے 31 افراد کی جان لے لی اور اس دوران 115 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جہاں کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں میں ا ضافے کا خدشہ ہے جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کراچی کے ایک درجن کے قریب علاقوں میں خون کی ہولی نے 31 افراد کو نگل لیا اور اس دوران کئی زخمی افراد نے تڑپتے ہوئے جان دے دی لیکن روڈ بلاک ہونے کے باعث ایمبولینسوں اور گاڑیوں کا بندوبست ہو سکا اور نہ ہی زخمیوں کو ہسپتال تک لے جایا جا سکا جبکہ لاشوں پر لاشیں گرتی رہیں، خون کی ندیاں بہتی رہیں لیکن مسلح افراد کو روکنے کیلئے کوئی نہ آیا اور ہنگامہ آرائی جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری رہا جبکہ علاقے میں کشیدگی برقرار رہی جبکہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے رینجرز کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کو مسلح افراد کو حکم دیا گیا کہ وہ مسلح افراد کو پوری طاقت سے کچل دے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے وکلاء کو سندھ بدری کے جو احکامات جاری کئے گئے ادھر ایم کیو ایم نے کراچی میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات پر آج اتوار کو یوم سوگ اور اے آر ڈی نے یوم سیاہ اور مجلس عمل 13 مئی کو یوم سیاہ اور 14 مئی کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق ہفتہ کو چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر اور متحدہ قومی موومنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کی ریلیوں کے موقع پر کراچی میں آگ اورخون کی ہولی کھیلی گی جس نے 31 افراد کی جان لے لی جبکہ 115 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ گزشتہ شب سڑکوں پر بڑے ٹرک، کنٹینر اور ٹرالر کھڑے کر کے روڈ بلاک کر دیئے گئے تھے جس کے نتیجے میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جناح ٹرمینل پر بین الاقوامی اور اندرون ملک پروازوں سے آنے والے مسافر ایئرپورٹ پر پھنسے رہے جبکہ شاہراہ فیصل مکمل طور پر بند رہی اور مسافروں نے ساری رات ایئرپورٹ کے لان میں گزاری۔

دوسری طرف دیگر تمام شاہراہیں بھی بند کر دی گئی تھیں انتظامیہ نے سڑکوں کو بسوں، ٹرکوں اورٹرالر کھڑے کر کے بند کر دیا اوران ک یٹائروں سے ہوا نکال دی تھی تاکہ انہیں اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکے۔ جبکہ چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کراچی لے جانے کیلئے اسلام آباد میں 8 بجے کے قریب وکلاء ان کی رہائش گاہ پر پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ دوسری جانب صبح کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں علی الصبح فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جن کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہوگئے تھے ہلاک ہونے والوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے بتایا گیا جبکہ پولیس کے مطابق ماڈل کالونی کی عباسی مارکیٹ میں ایک اسٹیٹ ایجنسی کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک شخص اصغرعلی شاہ موقع پر ہلاک جبکہ 7 افراد زخمی ہوئے جن میں محمد جہانزیب، شمروز اور اشفاق شامل ہیں انہیں جناح ہسپتال لایا گیا جہاں جہانزیب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے اس واقعہ کے 4 زخمیوں صفدر زمان، شیر محمد، فیروز خان اور بخت شیر کو شمسی سوسائٹی اورالفلاح کے ایک ہسپتال لایا گیا تھا جنہیں صبح کے وقت جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ مسلم لیگ کے رہنما نہال ہاشمی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ مذکورہ افراد ان کی حمایت کے کارکن ہیں جو ماڈل کالونی میں چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کے سلسلے میں پوسٹرز لگا رہے تھے جبکہ چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری ہفتہ کی دوپہر تقریباً 12 بجے پرواز نمبر پی کے 103 کے ذریعے کراچی ایئرپورٹ پہنچے جہاں ان کے وکلاء بیرسٹر اعتزاز احسن، منیر اے ملک اور حامد علی خان سمیت 25 وکیل ان کے ہمراہ تھے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جب ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی تاہم سڑکیں بلاک ہونے کے باعث بڑی تعداد میں وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکن ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کیلئے نہ پہنچ سکے جبکہ اس دوران سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں وی آئی پی لاؤنج سے جانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا اور عام لوگوں کے گیٹ سے لاؤنج میں داخل ہوئے اور اس دوران ان پر گل پاشی کی گئی ۔

اس موقع پر ایئرپورٹ پر سکیورٹی ہائی الرٹ تھی جبکہ چیف جسٹس کے صدارتی ریفرنس میں وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سازش ناکام بنا دی گئی اوراس دوران ہم کراچی کے عوام کے شکر گزار ہیں۔ لاؤنج میں نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے چیف جسٹس کو دھکے دیئے اور اس دوران کھینچاتانی کے واقعات پیش آئے جو کہ قابل شرم بات ہے۔

نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جونہی کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو اس دوران وکلاء اور عوام نے ان کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پر آنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ پہنچ سکے اور جب وکلاء اور اپوزیشن کی جانب سے استقبال کیلئے ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا تو کراچی کے علاقے ملیر میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دو متحارب گروپوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے باعث علاقے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور عوام خوف کے باعث اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے جبکہ سندھ بار کونسل کے صدر ابرار حسن نے کہا تھاکہ رکاوٹوں کے باعث وہ چیف جسٹس کے استقبال کیلئے نہیں پہنچ سکے۔

ابرارحسن نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس صبیح الدین نے سی سی پی او اظہر فاروقی کو طلب کر کے شہر کی صورتحال اور وکلاء کو ہراساں کرنے کا سختی کے ساتھ نوٹس لیا تھا اورانہیں ہدایت کی تھی کہ فوری طور پر سڑکیں کھول دی جائیں اس دوران سی سی پی او نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجبور ہیں اور اگر کچھ الیکشن لیتے ہیں تو بہت خون خرابہ ہوگا اور بہت لاشیں گریں گی۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے سی سی پی او اور ہوم سیکرٹری سندھ کو طلب کیا تھا اور ان سے شہرکی صورتحال پر وضاحت طلب کی تھی اور شہر کی صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے استقبال کیلئے کراچی کی تمام سڑکوں کو کھول دیا جائے جبکہ کراچی ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کو سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کیلئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سندھ ہائیکورٹ پہنچانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ انہوں نے مسترد کر دی جبکہ اس دوران چیف جسٹس کئی گھنٹے تک لاؤنج میں اپنے وکلاء کے ہمراہ بیٹھے رہے جبکہ دوپہر 12 بجے کے بعد کراچی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا اورملیر کے علاوہ شاہراہ فیصل میں ڈگ روڈ، ناظم آباد، کالابورڈ، سائٹ ایریا، عائشہ بادانی، گرومندر، ڈرگ روڈ، بنارس چک، کورنگی میں فائرنگ ہوتی رہی اوربعض علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں بھی شامل ہیں تاہم مشتعل افراد نے مذکورہ علاقوں میں سڑکوں پرکھڑے گئے کنٹینرز، ٹرالرز، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کر دیا اوراس دوران آسمان تک دھوئیں کے بادل چھا گئے اور کراچی میں ہرطرف دھواں ہی دھواں نظر آ رہا تھا جبکہ شہر بھرمیں آگ اورخون کی ہولی جاری رہی جس سے علاقے میں قیادت صغریٰ بپا ہوگئی اور فائرنگ و تشدد کے دیگر واقعات میں 31 افراد جاں بحق اور 115 سے زائد زخمی ہوگئے جنہیں قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا اس وقت علاقے میں لاشیں ہی لاشیں نظرآ رہی تھیں اورزخمی زخموں کی وجہ سے چیخ و پکار کر رہے تھے اور سڑکیں بند ہونے کے باعث فوری طور پر انہیں کسی ہسپتال میں بھی نہیں لے جایا جا سکا اور کئی افراد نے وہیں تڑپتے ہوئے جان دے دی جبکہ نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے گورو مندرکے علاقے میں زخموں کو لے جانے والی ایدھی سنٹر کی گاڑی کے ڈرائیور کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور ان کی لاشیں اٹھانے کیلئے آنے والی گاڑیوں کو نذر آش کر دیا مشتعل افراد نے 27 گاڑیوں کے علاوہ کئی موٹر سائیکل اور ایک پٹرول پمپ کو بھی نذر آتش کیا۔

آخری اطلاعات آنے تک تشدد کے واقعات میں 31 افراد کو نگل لیا تھا جبکہ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ واقعہ میں ان کے ایک درجن کے قریب کارکن جاں بحق ہوگئے جبکہ مسلح افراد نے گورو مندر کے علاقے میں بزنس ریکارڈر اور آج ٹی وی چینل کے دفاتر پر بھی فائرنگ کی اور عملے کا کہنا ہے کہ ان کے دفتر پر چھ گھنٹے تک فائرنگ کی جاتی رہی اور حکومت کی طرف سے انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گی۔

نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق سینکڑوں افراد فائرنگ کرتے رہے لیکن گڑ بڑ والے علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موجود نہیں تھے اور بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں فائرنگ ہو رہی تھی کہ سکیورٹی اہلکار ان علاقوں میں تھانوں کی عمارتوں میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے جبکہ ریلوے اسٹیشنوں پر فائرنگ کے باعث اندرون ملک ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہوگئی جبکہ ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم رہا اور کئی پروازیں ملتوی کر دی گئیں ادھر مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والا اصغر شاہ ان کا کارکن تھا۔

ماڈل کالونی میں 28 سالہ جہانزیب کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جہانزیب حق پرست رکن قومی اسمبلی عابد علی امنگ کا کزن تھا ہلاکت کا تیسرا واقعہ شاہراہ فیصل پر واقع ایک پلازہ میں پیش آیا جہاں 22 سالہ گارڈ امیر خان کو ہلاک کرایا گیا جبکہ مختلف علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ جاری رہا جبکہ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق کورنگی میں دو گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے علاقہ میں حالات کشیدہ ہونے کے باعث گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے وفاق سے چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کو واپس اسلام آباد بلانے کی درخواست کی تھی جبکہ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ کراچی فوج بھجے تاکہ حالات کو کنٹرول کیا جا سکے جبکہ 12 بجے ایئرپورٹ پہنچنے کے باوجود چیف جسٹس 4 بجے ایئرپورٹ لاؤنج میں رہے جبکہ اس دوران ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں چیف جسٹس نے اپنے وکلاء سے مشاورت کی حکومت سندھ کی طرف سے وفاق کو فوج بھیجنے کی درخواست کے بعد اسلام آباد میں صدرجنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جبکہ دوسری جانب حکومت سندھ نے وفاق سے مشاورت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے وکلاء بیرسٹر اعتزاز احسن، منیر اے ملک اور حامد علی خان اور دیگر وکلاء اور بعض صحافیوں کی صوبہ بدری کا حکم دیا تاہم اس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا نام شامل نہیں تھا جبکہ کراچی چھوڑنے کا حکم ملنے کے بعد چیف جسٹس کے وکلاء واپس اسلام آباد روانہ ہوئے جو کہ رات ساڑھے دس بجے کے قریب واپس اسلام آباد پہنچ گئے جبکہ صوبائی حکومت سندھ بار سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا پروگرام موخر کر دیں جبکہ تقریباً شام 4 بجے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تبت سنٹر میں متحدہ کی ریلی سے ٹیلی فونک خطاب کیا اورالزام عائد کیا کہ مبینہ طور پر واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی ذمہ داری چیف جسٹس پر عائد ہوتی ہے جبکہ وزارت داخلہ سندھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کہا کہ وہ تشدد کو کچلنے کیلئے پوری طاقت کا استعمال کریں اوروزارت کے حکم نامے میں رینجرز اور پولیس سے کہا گیا کہ وہ متاثرہ علاقوں میں جائیں اور مسلح افراد کو پوری طاقت سے کچل دیں جبکہ عینی شاہدین کے مطابق کراچی میں فائرنگ کے وقت ہو کر عالم تھا اورمسلح افراد کوروکنے والا کوئی نہیں تھا لاشوں پر لاشیں گرتی رہیں اور ہر طرف لاشے ہی لاشے گرتے رہے جبکہ گرومندر کے قریب کئی پولیس اہلکاروں کو آرام کرتے دیکھا گیا جبکہ جاں بحق ہونے والے دیگر افراد میں شجاع الرحمان ولد عبدالرحمان، مصور خان ولدقادر خان، اسلم، فیض رحمان، سہیل قادری، رحیم احمد شاہ، شاہ مسعود ولد غلام قادر اور کئی نامعلوم شامل ہیں۔

جناح اسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر پریتم جیسرانی نے بتایا کہ صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک 14 لاشوں اور 57 زخمیوں کو لایا گیا۔جناح اسپتال میں لائی جانے والی لاشوں میں 5 کی شاخت نہیں ہو سکی۔ہلاک شدگان میں جماعت اسلامی کے اسلم پرویز،سعید خان، سعید احمدشاہ اور غلام شامل ہیں۔لیاقت نیشنل اسپتال کے ڈائریکٹر علی عظمت عابدی نے بتایا کہ لیاقت اسپتال میں 3 افراد محمد فیصل ،رضوان شمیراور شہباز کی لاشیں جبکہ 3 زخمیوں کو لایا گیا۔

عباسی شہید اسپتال میں دو افراد کی لاشیں اور سول میں 7 زخمیوں کو لایا گیا۔سول اسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی تھی۔ادھر پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ شاہراہ فیصل کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔جبکہ آخری اطلاعات آنے تک تشدد کے واقعات جاری تھے۔ ناظم آباد اورپٹیل پاڑہ میں ہنگامہ آرائی ،جلاوٴ گھیراوٴ اور متحارب گرپوں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا ۔

پر تشدد واقعات میں ہلاک ہو نے والے افراد کی18 لاشیں جناح اسپتال ،لیاقت اسپتال میں 3 ،سول اسپتال میں ایک اور عباسی شہید میں 5 لاشوں کو لایا گیا ،ہلاک شدگان میں سے متعددافراد کی شناخت نہیں کی جاسکی۔ زخمیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں اسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے ۔ادھر اطلاعات کے مطابق رینجرز کے دستے حیدرآباد سے کراچی کے لئے روانہ ہو گئے ہیں دھر ایم کیو ایم نے آج یوم سوگ اور اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔

ہلاک ہو نے والے افراد میں سے جناح اسپتال میں 16 ،لیاقت اسپتال میں 3،عباسی شہید اسپتال میں 2 اور ایک لاش کو سول اسپتال میں لایا گیا ۔جبکہ وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے 17 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں رونما ہو نے والے پرتشدد واقعات پرکل بروز اتوار یوم سوگ کا اعلان کیاہے۔ اے آر ڈی نے بھی کل یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے ۔

متحدہ مجلس عمل نے کراچی کے واقعا ت پر 13 مئی کو یوم سیاہ اور14 مئی کو ہڑتاکا اعلان کیا ہے ادھر شارع فیصل پر شام کو رکاوٹیں ہٹا دی گئیں تاہم ٹریفک بحال نہ ہو سکا اور شاہراہ کے اطراف کے علاقوں میں کشید گی برقرار ہے تاہم فائرنگ اور جلاوٴ گھراوٴ کا سلسلہ شام تک رک گیا تھا۔ ادھر پولیس ذرائع نے بتا یا ہے کہ شارع فیصل کو دوبارہ سیل کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں جس کے تحت شارع فیصل کو ائیرپورٹ سے ہو ٹل میٹروپول تک بند کیا جا ئے گا۔

ادھر رام سوامی میں دو دھماکے ہو ئے جن سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی جبکہ وفاقی سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ نے کہاہے کہ کراچی کے فساد زدہ علاقوں میں رات اور دن کے وقت رینجرز اور پولیس کا مسلسل گشت جاری رہے گا۔پولیس ذرائع نے پر تشدد واقعات میں تیس افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔ڈرک روڈ کے علاقے میں مسلح افراد کے گشت کی اطلاعات ملی ہیں اور گولڈن ٹاوٴن میں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے پی ایم ٹی اڑادی۔

اطلاعات کے مطابق رام سوامی دو دھماکے ہو ئے جس سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔ بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ دھماکے گیس سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے ہوئے۔ اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہو ئے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ آٹھ کے قریب فساد زدہ علاقوں میں پولیس اور رینجرز کے مزید دستے تعینات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی شہر میں سڑکیں بلاک کرنے سے زیادہ مشکلات پیدا ہوئیں۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جن علاقوں میں کل تدفین ہو گی وہاں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے اضافی نفری تعینات کرنے کے علاوہ خصوصی حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ ادھر اسلام آباد میں صدر جنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی کی صورتحال پر کنٹرول کے لئے رینجرز کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ہو نے والے اجلاس میں وزیراعظم شوکت عزیز اور اعلیٰ حکام شریک تھے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی میں صورتحال کوکنٹرول کے لئے رینجرز کو تعینات کیا جائے۔ جبکہ چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری اوران کے وکلاء تقریباً رات ساڑھے دس بجے کراچی سے واپس اسلام آباد پہنچے کراچی میں ہونیوالے واقعات اور کشیدہ صورتحال کے باعث چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ بار سے خطاب نہ کر سکے۔