فلک شیر کا انکار، 13 رکنی فل کورٹ کی از سر نو تشکیل،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سنیارٹی کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے میں فل کورٹ میں نہیں بیٹھ سکتا، دوبارہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو میرے بغیر ہو اور وہ اس اہم آئینی پٹیشن کی سماعت کرے، جسٹس فلک شیر، قائمقام چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیا جانیوالا 13 رکنی فل کورٹ کل سے روزانہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کی آئینی درخواست اور دیگر 23 درخواستوں کی سماعت کریگا۔تفصیلی خبر

پیر 14 مئی 2007 15:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14مئی۔2007ء) چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست اور دیگر 23 درخواستوں کی سماعت کیلئے تشکیل دیئے گئے 14 رکنی فل کورٹ میں جسٹس فلک شیر کے بیٹھنے سے انکار کے بعد قائمقام چیف جسٹس ، جسٹس رانا بھگوان داس نے دوبارہ 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دے دیا ہے جو چیف جسٹس کی آئینی درخواست اور دیگر 23 درخواستوں کی سماعت کا آغاز آج منگل سے روزانہ کی بنیاد پر کریگا۔

تفصیلات کے مطابق پیر کو چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست اور دیگر 23 درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فلک شیر نے فل کورٹ میں بیٹھنے سے انکار کردیا جس کے باعث سپریم کورٹ کا تشکیل کردہ فل کورٹ ٹوٹ گیا ۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں فل کورٹ جسٹس محمد نواز عباسی ،جسٹس فقیر محمد کھوکھر،جسٹس فلک شیر ،جسٹس میاں شاکراللہ جان،جسٹس ایم جاوید بٹر ،جسٹس تصدق حسین جیلانی ،جسٹس سید سعید اشہد ،جسٹس ناصر الملک،جسٹس راجہ فیاض احمد ،جسٹس چوہدری اعجاز احمد اور جسٹس سید جمشید علی، جسٹس حامد علی مرزا اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

سوموار کو 14 رکنی فل کورٹ نے جیسے ہی سماعت شروع کی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے رکن رشید رضوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 12 مئی کو کراچی وکلاء کی تقریب سے خطاب کرنے جارہے تھے لیکن ان کو 10 گھنٹے تک ایئرپورٹ میں بند رکھا گیا اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سندھ ہائی کورٹ کی طرف آنے والے راستوں کو بلاک کرنے کے خلاف از خود نوٹس لیا اور ان راستوں کو کھولنے کی ہدایات کی گئیں لیکن عدالتی احکامات کے باوجود راستے نہیں کھولے گئے۔

چیف جسٹس کو زبردستی اغواء کرنے کی کوشش کی گئی اس پر عدالت نوٹس لے۔ اس دوران حکومتی وکلاء کے پینل میں شامل وکیل احمد رضا خان قصوری نے کہا کہ یہ عدالت میں سیاسی بیانات دے رہے ہیں جس پر رشید رضوی نے ان کو اپنے کیخلاف اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے روکا۔ اس دوران فل کورٹ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو کچھ ہوا کیا ایسی خراب صورتحال پہلے کبھی ہوئی ہم یہاں ایک ریفرنس کی سماعت کے لئے بیٹھے ہیں اگر ہم اس میں فیل ہوئے تو کیا ہوگا۔

عدالت میں جو ایکسر سائز ہورہی ہے اس کو جاری رہنے دیں۔ ہم ججز صاحبان نے بھی ذمہ داری کا احساس کیا ہے آپ لوگ بھی ذمہ داری محسوس کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ یہ ذمہ داری صرف ہم 14 جج صاحبان کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کوشش کریں گے کہ سماعت اچھے ماحول میں ہو باہر کے حالات سے ہٹ کر بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک کی نظریں ہم 14 جج صاحبان پر ہیں ہمیں تمام بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسل پر یقین ہے۔

اس دوران رشید رضوی نے کہا کہ ہم چیف جسٹس کے ساتھ سندھ میں ہونیوالی بدسلوکی پر ایکشن کا مطالبہ کرتے ہیں اس دوران چیف جسٹس کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے چیف جسٹس کو سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لئے راستے کھولنے کے لئے از خود نوٹس لیا اور آئی جی اور کور کمانڈر کو طلب کیا۔ آئی جی تو عدالت میں پیش ہوئے لیکن کور کمانڈر عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

اس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیڈ کونسل اعتزاز احسن روسٹرم پر آئے تو فل کورٹ کے رکن اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فلک شیر نے کہا کہ وہ فل کورٹ میں موجود دوسرے ججوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتے کیونکہ وہ گزشتہ بیس سالوں سے سپریم کورٹ کے جج ہیں انہوں نے کہا کہ اس فل کورٹ میں موجود تمام ججوں حتیٰ کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بھی زیادہ سینئر ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی سنیارٹی کی بدولت آئندہ چیف جسٹس بن جائیں لہذا وہ اس فل کورٹ میں بیٹھنے کے لئے تیا رنہیں کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ ریفرنس کی سماعت کے دوران انہیں کوئی معتصبانہ سوچ سامنے آجائے۔

اس دوران جسٹس فلک شیر نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ میں جس کیس کی سماعت ہورہی ہے اس میں شامل تمام جج صاحبان مجھ سے چار سے نو سال تک جونیئر ہیں۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت میں چیف جسٹس پارٹی ہے لہذا میں اس کیس کی سماعت میں نہیں بیٹھوں گا۔ سماعت کے دوران تمام وکلاء نے زور دیا کہ میں کیس کی سماعت میں بیٹھوں لیکن میں قوم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں سپریم کورٹ کا سب سے سینئر جج ہوں لہذا اس فل کورٹ بینچ میں نہیں بیٹھوں گا۔

میں قوم اور عدلیہ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔ جسٹس فلک شیر کی جانب سے لکھوائے گئے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ دوبارہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو میرے بغیر ہو اور وہ اس آئینی پٹیشن کی سماعت کرے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکلاء اعتزاز احسن اور دیگر نے کہا کہ انہیں جسٹس فلک شیر پر کوئی اعتراض نہیں اور وہ ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں لیکن جسٹس فلک شیر نے کہا کہ وہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس فل کورٹ میں بیٹھا جائے- جبکہ فل کورٹ ٹوٹنے کے بعد اس کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے فل کورٹ کی دوبارہ تشکیل کا معاملہ قائم مقام چیف جسٹس ، جسٹس رانا بھگوان داس کو بھیج دیا جس کے بعد قائمقام چیف جسٹس، جسٹس رانا بھگوان داس نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست اور دیگر 23 درخواستوں کی سماعت کیلئے فل کورٹ دوبارہ تشکیل دیا۔

نئے تشکیل دیئے جانے والے فل کورٹ کی سربراہی جسٹس خلیل الرحمن رمدے ہی کریں گے جبکہ دیگر جج صاحبان میں جسٹس محمد نواز عباسی ، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس میاں شاکراللہ جان،جسٹس ایم جاوید بٹر ، جسٹس تصدق حسین جیلانی ، جسٹس سید سعید اشہد ، جسٹس ناصر الملک ، جسٹس راجہ فیاض احمد ، جسٹس چوہدری اعجاز احمد، جسٹس سید جمشید علی، جسٹس حامد علی مرزا اور جسٹس غلام ربانی شامل ہیں۔ فل کورٹ مذکورہ درخواستوں کی سماعت آج منگل سے روزانہ کی بنیاد پر کریگا۔