صدارتی ریفرنس کیخلاف چیف جسٹس کی درخواست پرشریف الدین پیرزادہ کےدلائل مکمل‘ سماعت کل تک کیلئے ملتوی۔ صدارتی ریفرنس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرالتواء ہے‘ صدریا گورنرکو فریق نہیں بنایا جاسکتا‘ریفرنگ اتھارٹی کے وکلاء کے دلائل۔ سپریم جوڈیشل کونسل عدالت نہیں بلکہ وہ صرف اپنی رائے دے سکتی ہے،فل کورٹ کے سربراہ مسٹرجسٹس خلیل الرحمن رمدے کے ریمارکس۔اٹارنی جنرل مخدوم علی خان‘ مقبول الٰہی ملک ایڈووکیٹ نے بھی دلائل دیئے‘ وفاق کی طرف سے احمد رضا قصوری کو جج صاحبان نے چیف جسٹس کیخلاف دلائل دینے سے روک لیا

بدھ 16 مئی 2007 15:02

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار16 مئی2007) سپریم کورٹ کے 13رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست پر سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک کیلئے ملتوی کردی‘ جبکہ صدر مملکت کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے چیف جسٹس کی آئینی درخواست پر اعتراضات کے حوالے سے دلائل مکمل کرلئے‘ حکومتی وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف آئینی پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ میں نہیں کی جاسکتی جبکہ فل کورٹ کے سربراہ مسٹر جسٹس خیل الرحمن رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل عدالت نہیں ہے وہ صرف اپنی رائے دے سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست اور دیگر 23 آئینی درخواستوں کی سماعت تیرہ رکنی فل کورٹ نے کی۔

(جاری ہے)

فل کورٹ کی سربراہی جسٹس خلیل الرحمن رمدے کررہے ہیں جبکہ دیگر جج صاحبان میں مسٹر جسٹس محمد نواز عباسی‘ مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر‘ مسٹر جسٹس میاں شاکر الله جان‘ مسٹر جسٹس ایم جاوید بٹر‘ مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی‘ مسٹر جسٹس سید سعید اشہد‘ مسٹر جسٹس ناصر الملک‘ مسٹر جسٹس راجہ فیاض احمد‘ مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز احمد‘ مسٹر جسٹس سید جمشید علی‘ مسٹر جسٹس حامد علی مرزا اور مسٹر جسٹس غلام ربانی شامل ہیں ۔

سماعت جیسے ہی شروع ہوئی تو ریفرنگ اتھارٹی کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی طرف سے جو آئینی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے اس کی سماعت آئین کے آرٹیکل 210 اور 211 کے مطابق نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ معاملہ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواء ہے اور یہ پٹیشن قبل از وقت داخل کی گئی ہے کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی بھی فیصلہ یا آرڈر نہیں آیا۔

انہوں نے ماضی میں بعض ججز کیخلاف دائر ریفرنسز کا حوالہ دیا جس میں جسٹس اخلاق‘ جسٹس حسن علی آغا‘ جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس شیخ شوکت شامل ہیں۔ انہوں نے امریکہ‘ برطانیہ‘ ملائشیا‘ کینیا اور دیگر ممالک میں ججز کے خلاف دائر کئے گئے ریفرنس کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ان مماک میں 18 ویں 19ویں صدی میں مثالیں موجود ہیں کہ ججز کو رخصت پر بھیج دیا گیا تھا انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت کسی بھی پٹیشن میں صدر یا گورنر کو فریق نہیں بنایا جاسکتا۔

اس دوران جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے شریف الدین پیرزادہ کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ہمارے لئے قیمتی اثاثہ ہیں آپ کے دلائل میں معلومات ہوتی ہیں لیکن آپ نے اپنے دلائل میں پاکتان کے جن ججز صاحبان کا ذکر کیا ہے ان میں سے تین ریفرنس مارشل لاء دور کے ہیں۔ جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواء ہے جہاں پر ریفرنس کی شروعاتی معاملات پر بحث ہوچکی ہے لہذا ایسا کوئی بھی ایشو جو کونسل کے سامنے ہو وہ کورٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

اس دوران جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل عدالت نہیں ہے عدالت کو کونسل کے اختیارات کے بارے میں بتائیں سپریم جوڈیشل کونسل صرف اپنی رائے دے سکتی ہے۔ جبکہ اس دوران فل کورٹ کے رکن مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز احمد نے کہا کہ کونسل آئینی اور ایڈمنسٹریٹو باڈی ہے جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ کونسل میں جو جج صاحبان بیٹھے ہیں وہ ہمارے سینئر ہیں اور میں ان کے سامنے اپنے آپ کو Handicap محسوس کرتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209/6 کے تحت اپنی رپورٹ صدر کو دینے کی پابند ہے اور اس کے بعد صدر کی صوابدید ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں جس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کونسل کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ اپنی رپورٹ پر عمل درآمد کرائے لیکن جو اس فل کورٹ میں ہورہا ہے وہ اس رپورٹ کے آنے سے قبل از وقت ہے اس دوران وفاق کی طرف سے مقبول الٰہی ملک ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جو صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواء ہے اس پر پٹیشن آرٹیکل 184/3ج کے تحت داخل نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس معاملے میں کسی قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور اس پٹیشن کی سماعت نہیں کی جاسکتی۔

جس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ملک صاحب ابھی تو ہمیں بھی پتہ نہیں کہ کیا ہوگا تو آپ کو کیسے پتہ کہ یہ سب کچھ ہوگا عدالت کسی بھی سائل کو چاہے وہ کوئی بھی شہری ہو درخواست داخل کرنے سے نہیں روک سکتی ہاں البتہ ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اس کی سماعت نہ کریں جس پر مقبول الٰہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی باڈی ہے اس کے خلاف کسی بھی آئینی پٹیشن کی سماعت نہیں کرسکتے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ ملک صاحب آپ حدود کراس کررہے ہیں آپ اپنے دلائل آئینی پٹیشن کی سماعت فل کورٹ کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے تک محدود رہیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کے خلاف وفاق کی طرف سے احمد رضا قصوری پیش ہوئے تو انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دلائل دینے کی کوشش کی تو تمام ججز صاحبان نے انہیں روک دیا اور سماعت آج صبح ساڑھے نو بجے تک کیلئے ملتوی کردی۔