چپڑاسی کو نکالو تو اس کو اپیل کا حق ہوتا ہے یہ کیسا آئین ہے کہ چیف جسٹس کو اپیل کا حق حاصل نہیں‘ خلیل الرحمن رمدے۔اپیلٹ فورم ضرور ہونا چاہئے اس سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے‘ اگر ایسا پہلے کرلیا جاتا تو آج سڑکوں پر احتجاج نہ ہوتا‘ سماعت کے دوران ریمارکس۔سپریم کورٹ‘ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر نظر ثانی کرسکتی ہے‘ کونسل کوئی عدالت نہیں‘ کونسل عدالت عظمیٰ میں پارٹی نہیں بن سکتی‘ اعتزاز احسن کے دلائل

جمعرات 24 مئی 2007 13:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مئی۔2007) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کیس کی سماعت کے دوران فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیئے کہ چپڑاسی کو بھی نکالو تو اس کے پاس بھی اپیل کا حق ہوتا ہے یہ کیسا آئین ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اپیل کا حق حاصل نہیں ہے‘ اپیلٹ فورم ضرور ہونا چاہئے اس سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے اگر ایسا پہلے ہی کرلیا جاتا تو آج سڑکوں پر اس طرح سے احتجاج نہ ہوتا‘سپریم کورٹ جج کے لئے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ سیشن جج اور ہائی کورٹ جج کی سپریم کورٹ اصلاح کرسکتی ہے سپریم جوڈیشل کونسل کی اصلاح کون کریگا ‘ انتظامیہ کی تمام کارروائی قابل مداخلت ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت دیگر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران ادا کئے ہیں جبکہ چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر‘ وزیراعظم سمیت چیف جسٹس بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے تاہم چیف جسٹس کا احتساب کرنے والا فورم پراپر نہیں ہے اس معاملے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس کے وکیل اپنے دلائل آج بھی جاری رکھیں گے۔ سپریم کورٹ نے مزید سماعت کلجمعہ تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اور دیگر افراد کی آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کررہا ہے۔ چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 211, 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے کونسل کسی قسم کی کوئی عدالت نہیں ہے اس لئے یہ کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی اس کا دائرہ اختیار انتہائی محدود ہے کونسل کی رپورٹ کا صدر پابند نہیں کونسل کا کام آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت صدر کو رپورٹ بھجوانا ہے اس لحاظ سے سپریم جوڈیشل کونسل کسی صورت بھی سپریم کورٹ کے اختیار سماعت اور نظر ثانی کے اختیار سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

انہوں نے کونسل کی تشکیل سے متعلق چند ممبران کی شمولیت سے متعلق ایوان صدر میں ریفرنس مرتب کئے جانے آرمی ہاؤس مین چیف جسٹس کو حراست میں رکھے جانے‘ گھر میں محصور کرنے کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے معاملات کے حوالے سے دلائل دیئے اور کہا کہ یہ تمام معاملات کونسل کی بجائے سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت میں آتے ہیں ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے شریف الدین پیرزادہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دوسری درخواستوں کے جواب میں دو جواب داخل کئے ہیں جس میں کونسل نے موقف اختیار کیا ہے کہ چیف جسٹس کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے اسی بنا پر اب کونسل بھی فریق بن گئی ہے اور مخالف فریق کا روپ رکھتی ہے۔

وہ جو فیصلہ مرضی کرے لیکن کونسل کسی طرح سے بھی عدالت عظمیٰ میں پارٹی نہیں بن سکتی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اور دوسری عدالتوں کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا جن میں ظفر علی شاہ‘ طارق ٹرانسپورٹ کیس‘ نعیم الله کیس شامل ہیں۔ چیف جسٹس کے وکیل نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 (1) کے تحت صدر وزیراعظم اور کابینہ کی کسی درخواست کا پابند نہیں ہے۔

اس پر جسٹس خیل الرحمن رمدے نے کہا کہ اگر کونسل کے ججز کہہ دیتے ہیں کہ جج اہل نہیں ہے اور صدر اسے پھر بھی فارغ نہیں کرتا تو پھر ججوں کی رائے کہاں جائے گی اس لئے ہمیں مستقبل قریب میں یہ سوچنا پڑے گا کہ جج کو نکالا جائے تو اس کے لئے بھی اپیلٹ فورم ہونا چاہئے اگر ایسا فورم مل جائے تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ وزیراعلیٰ کا اپنا کیس تھا تواس کے لئے قیوم ملک نے عدالت کا احاطہ اختیار وسیع کردیا اور آج جب چیف جسٹس کا کیس ہے تو وہ اب کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کی تقرری کا معاملہ 209 میں نہیں آتا تو برخواستگی کا معاملہ کیسے 209 میں آسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209 میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کونسل معاملے کی جلدی میں اجلاس بلا کر کارروائی کرے سماعت کے دوران جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیئے کہ آج وہ چپ رہیں گے کیونکہ انہیں آج گھر میں ناشتے کے دوران ڈانٹ پڑی ہے کہ تم بہت بولتے ہو۔ چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ کے دلائل جاری تھے عدالت کا وقت ختم ہونے پر مزید سماعت کل جمعہ تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔