چیف جسٹس کا عہدہ خالی نہیں تو قائم مقام کا تقرر کیسے کیا جا سکتا ہے ، جسٹس خلیل الرحمان رمدے

آئین میں ججوں کی ملازمت کو اس قدر تحفظ حاصل ہے کہ آئین میں ترمیم کے بغیر جج کی تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی کم نہیں کیا جا سکتا۔دنیا کا کوئی ایسا کیس بتائیں جس کے تحت چیف جسٹس کو گھر میں بند کر دیا گیا ہو، چیف جسٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس.(تفصیلی خبر)

منگل 10 جولائی 2007 17:44

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار10 جولائی 2007) سپریم کورٹ میں 13 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے چیف جسٹس افتخا رمحمد چوہدری کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب چیف جسٹس کا عہدہ خالی نہیں تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر کیسے کیا جا سکتا ہے، آئین ججوں کی ملازمت کو اس قدر تحفظ دیتا ہے کہ آئین میں ترمیم کئے بغیر ایک جج کو تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی کم نہیں کیا جا سکتا تو چیف جسٹس کو کیسے معطل کیاجا سکتا ہے ، اگر انتظامیہ کو کسی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے اور جج کو لازمی رخصت پر بھیجنے کا اختیار ہو تو ایسی صورت میں ججوں کی ملازمت کا تحفظ کہا ں گیا، دنیا کا کوئی ایسا کیس بتائیں کہ جس کے تحت چیف جسٹس کو گھر میں بند کر دیا گیا ہو انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز ادا کئے ہیں ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی سربراہی میں منگل کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست کی سماعت کی ۔ گزشتہ روز سماعت سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر اے ملک عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے آئین اور قانون سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کی ہے۔

اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے انہیں ہدایت کی کہ آپ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں وہ تحریری طور پر عدالت میں پیش کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے وفاق کے وکیل قیوم ملک کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ سی ڈیز اور پریس کلپگنز اور سکرپٹ منیر اے ملک کو دیں علاوہ ازیں انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو ہدایت کی کہ یہ ایک سیریس معاملہ ہے نہ ہم غلط فہمی کا شکار ہونا چاہتے ہیں نہ انہیں کرنا چاہتے ہیں ۔

سی ڈیز اور سکرپٹ ساتھ لے جائیں سی ڈیز سن لیں اور سکرپٹ پڑھ لیں اور اس کے مطابق تحریری جواب بدھ کے روز عدالت میں پیش کریں اس کے بعد وفاق کے وکیل نے سی ڈیز اور سکرپٹ مذکورہ صدر کے حوالے کر دئیے اور اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ چیف جسٹس کے حوالے سے جو تین آرڈر جاری کئے گئے تھے ان میں سے کسی آرڈر کو بھی واپس نہیں لیا گیا تاہم میں اپنی بحث میں لازمی رخصت کے قانون کو زیادہ دیر زیر بحث لاؤں گا اور باقی دو پر صرف اپنی فارمولیشن پیش کروں گا ججوں کو لازمی رخصت پر بھجوانے صدارتی آرڈر نمبر 27 آف 1970ء کو لاء ویلڈیشن ایکٹ 1975ء کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے ۔

لازمی رخصت کا قانون آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی نہیں ہے اور جج کو کتنی دیر تک لازمی رخصت پر بھیجوایا جائے گا۔ یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل پر منحصر ہے کیونکہ کونسل ہی اس کے خلاف سماعت کرتی ہے ۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ اگر حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں 200 گواہ پیش کرنے ہوں تو پھر 2 سال بھی کم ہیں ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ججوں کی سروس کی سیکیورٹی اور عدلیہ کا تحفظ کہاں گیا اگر یہ اختیار ایگزیکٹو کے پاس ہو تو ریفرنس بھیجیں جج کو چھٹی پر بھیج دیں تو اس صورت میں ججوں کی سروس کو تحفظ کہاں ہے۔

اگر کوئی جج کسی حساس معاملے کی سماعت کر رہا ہو ، اگر لوگ کہیں کہ فلاں جج سماعت کر رہا ہے فلاں کر رہا ہے تو ایسی صورت میں سروس کا تحفظ کہاں گیا؟ ہمارا یہ اصول ہے کہ ہم نے ہر آدمی کو اچھا نیک اور دیانتدار سمجھنا ہے لیکن جب ہم نے چیک کرنا ہوتا ہے تو ہول کو پلگ کرنا ہوتا ہے اس وقت ہمارے سامنے اگر صدر بھی ہو تو ہم تو ایسی صورت میں ہمارے ذہن درست نہیں بلکہ بڑا غلط آدمی ہوتا ہے۔

اگر آپ اس وقت اچھے صدر کو ذہن میں رکھیں گے تو یہ تشریح نہیں کر سکیں گے آپ اچھے صدر کی بات کو بھول جائیں آپ کے پاس ایک کام کرنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر دوسرا آدمی آپ کے سامنے جتنا بھی غلط کام کیوں نہ کر رہا ہو تو آپ اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔ ملک قیوم نے کہا کہ اگر کسی جج کے خلاف بدعنوانی کا الزام ہے اور اس بارے میں ثبوت بھی موجود ہوں تو پھر اس کا کیا کیا جائے؟ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ اگر آپ کے پاس ایک کام کرنے کا اختیار نہیں تو آپ دوسرے آدمی کا کچھ نہیں کر سکتے۔

اس طرح اگر کوئی جج کرپٹ ہے اور کسی کے پاس اس کے خلاف ایکشن کا اختیا رنہیں ہے تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ اس حوالے سے بتائیں کہ صدر کے پاس اس کا اختیار وجود ہے یا نہیں ؟ ملک قیوم نے کہا کہ چیف جسٹس کو لازمی قانون کے تحت رخصت پر بھجوایا گیا ہے اور اسے صدارتی آرڈر نمبر 27 کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے جسٹس کارنیلس جسٹس محمود الرحمان ، جسٹس گل اور شریف الدین پیرزاعدہ نے پی او 27 کو بنایا ان کو ایک بار کا یقین تھا کہ صدر کے پاس اس کے علاوہ جج کو کوئی اختیار نہیں ہے کیا یہ درست ہے؟ ملک قیوم نے کہا کہ یہ درست ہے تو جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ پھر اس کو آپ کی طرف سے لکھ دیں تو اس پر ملک قیوم نے کہاکہ اسے میری طرف سے نہ لکھیں تو جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہاکہ آپ نہیں لکھتے تو ہم اپنی مرضی سے لکھ لیتے ہیں ۔

ملک قیوم نے کہا کہ اگر جج کی تعیناتی آرٹیکل 209 کے تحت ہوتی ہے تو اس سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس پر جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ ہم نے فراغت کا نہیں صرف معطلی کا فیصلہ کرنا ہے اس پر ملک قیوم نے ریموول کے حوالے مختلف ڈکشنریوں سے اس کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب کسی شخص کو اس کی طرف سے قبضہ شدہ زمین سے دور لے جانا ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے مختلف پبلک سروس کے مقدمات کی بات کی تو جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہآپ ہمیں عام پبلک سروس مقدمات کے حوالے نہ دیں وہ سب غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ ججوں کو آئین میں سروس کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس پر جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے کہاکہ فلپائن میں ججوں کی عارضی معطلی نوکری سے عارضی فراغت سمجھی جاتی ہے اس کے بعد ملک قیوم نے مختلف ممالک کی سپریم کورٹس کے فیصلوں کے حوالے سے بات شروع کی تو جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ آپ ہمیں ساری دنیا کی سیر کراتے رہتے ہیں اور وہ بھی صرف کتابوں کے ذریعے کبھی حقیقت میں سیر نہیں کراتے اس پر ملک قیوم نے کہاکہ یہ سیر تو آپ کو چوہدری اعتزاز احسن کرا سکتے ہیں ۔

جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ آئین میں ترمیم کئے بغیر ججوں کی تنخواہ سے ٹیڈی پیسہ کم نہیں کر سکتے تو چیف جسٹس کو کیسے معطل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین ججوں کی سروس کو اس قدر تحفظ دیتا ہے کہ آپ ایک جج کی تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی کم نہیں کر سکتے۔ اس پر ملک قیوم نے کہا کہ آپ تنخواہ لیں لیکن کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے شوکت علی کیس کا حوالہ پیش کرنے کی کوشش تو جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ہم شوکت کیس کے پابند نہیں شوکت علی اور ا خلاق علی کو کیوں نکالا گیا وہ سب کو پتہ ہیں انہیں جوڈیشری کی وجہ سے نکالا گیا تھا۔

جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ کسی جج کو انفرادی تحفظ نہیں بلکہ پوری جوڈیشری کو تحفظ حاصل ہے۔ ملک قیوم نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ میں ایسا کیس لے آؤں جس میں چیف جسٹس کا تذکرہ ہو اور صدر کی طرف سے دا ئر کئے جانے والے ریفرنس کا تذکرہ ہو تو ایسا کوئی کیس میرے پاس نہیں ہے جو میں بتا سکوں آپ مجھے سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ اس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ چونکہ ایکٹو پارٹی ہو اس لئے آپ سے زیادہ سے زیادہ سوالات کرتے ہیں آپ نے ہی اقدامات کئے ہیں اس لئے آپ نے ہی اس کی وضاحت کرنی ہے اور آپ ہیں کہ ہمیں چپڑاسیوں عام سول ملازمین کی باتیں سناتے ہیں۔

ملک قیوم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 260 کے مطاطق ججز بھی پبلک سرونٹ ہیں وہ سرول سرونٹ نہیں ہیں۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ جج کا اخلاق سب سے بہتر ہونا چاہیے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے تاہم جج اور دوسرے ملازم کا معیا کیا ہو گا۔ ملک قیوم نے کہا کہ اس سلسلے میں معیار ججوں کے کوڈ آف کنڈیکٹ میں دیا گیا ہے اور ملک اس کیس میں عدالت نے خود ہی چیف جسٹس کو معطل کیا تھا۔

اس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ اس میں چیف جسٹس کی تقرری کا معاملہ تھا ملک اسد کیس میں صدر نے ریفرنس تو نہیں بھیجا تھا اور نہ ہی صدر نے معطل کیا تھا۔ ملک قیوم نے کہا کہ 15 مارچ کو صدر نے چیف جسٹس کو لازمی رخصت پر بھیجا تھا اس کی توثیق تو پارلیمنٹ نے کی تھی تو اس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ قانون بننے سے قبل تو آپ پوچھتے رہتے ہیں کہ یہ قانون بن سکتا ہے تو یہ کوئی اچھنبانہیں تھا کہ اختیار کو استعمال کرنے سے قبل پوچھ لیتے۔

ملک قیوم نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس کی ذات سے کوئی اختلاف نہیں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ہمیں کسی کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں ہمیں تو آئین و قانون سے دلچسپی ہے۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 261 کے تحت قائم مقام چیف جسٹس چیف جسٹس آف پاکستان کا جانشین نہیں بن سکتا۔ ملک قیوم نے امریکی عدالتوں کے فیصلوں کو بائبل قرار دینے کے حوالے سے بات کی تو جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ بائبل پر بطور مسلمان ایمان ضرور ہے لیکن عمل قرآن مجید کے مطابق کریں گے۔

ملک قیوم نے کہا کہ جب بھی میں بات کرنے لگتا ہوں مجھے سوالات کر کے روک دیا جاتا ہے تو اس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ ہر ٹیم میں مختلف کام کرنے کیلئے مختلف ممبرز کام کرتے ہیں فل بیک بھی ہوتے ہیں اور فاورڈ بھی ہم نے بھی ممبر مقرر کئے تھے اٹیک کرنے کیلئے جبکہ اعتزاز احسن کیلئے الگ ٹیم مقرر تھی اور آپ پر اٹیک کرنے والی ٹیم اور ہے۔ سماعت ابھی جاری تھی کہ عدالت کا وقت ختم ہو جانے کی وجہ سے مزید سماعت آج بروز بدھ تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔