ڈاکٹر کمیشن کی خاطر غریب لوگوں کو مہنگی ادویات خریدنے پر اصرار کرتے ہیں، چیف جسٹس،ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے، اس کو روکنا ضروری ہے ، بھارت میں عام ادویات کی قیمتیں ہمارے ملک کی نسبت انتہائی کم ہیں، سماعت کے دوران ریمارکس

بدھ 8 اگست 2007 17:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8اگست۔2007ء) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے پرانتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ادویات کی تیاری پر 500 فیصد منافع حاصل کر رہی ہیں جو کہ ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے ، دوائی ایک فارمولا ایک تو قیمتوں میں یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ ڈاکٹر حضرات اپنے کمیشن کی خاطر غریب لوگوں کو مہنگی ادویات کی خریداری پر اصرار کرتے ہیں جنہیں روکنا انتہائی ضروری ہے۔

بھارت میں فروخت ہونے والی عام ادویات ہمارے ملک کی نسبت انتہائی کم نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں ۔ ہمیں غیر ملکی رپوٹوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے ملک کے غریب صارف سے غرض ہے۔ وزارت صحت بین الاقوامی مارکیٹ اور مقامی ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرے ہم اس پر مکمل بھروسہ کریں گے۔

(جاری ہے)

دیکھنا یہ ہے کہ ایک عام خریدار کس حد تک ادویات کی قیمت دے سکتا ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ایک نامعلوم شخص کی طرف سے لکھے گئے خط پر لئے گئے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ادا کئے ہیں جبکہ وزارت صحت کی طرف سے ڈرگ انسپکٹر ڈاکٹر فرناز ملک نے عدالت میں تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایاکہ وزارت صحت نے ملک بھر میں ایس آر او 2006-1103(1) جاری کیا ہے جس کے تحت ادویات بنانے والوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ تمام ادویات کی اصل قیمت تاجروں اور ڈاکٹروں کو صرف 40 فیصد رعایت دے سکتے ہیں اس طرح 100 روپے کی دوائی 60 روپے میں فروخت ہونے سے عام آدمی کو مالی فائدہ پہنچے گا اس کا نقصان صرف تاجر اور ڈاکٹر کو ہو گا جو کہ قابل برداشت ہے۔

جبکہ عدالت نے وزارت صحت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 22 اگست کو ایسا چارٹ مرتب کریں جس میں مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایک ہی جیسی ادویات کی قیمتیں درج کی گئی ہوں اور ادویات میں استعمال ہونے والے مالیکیول کی تعداد بھی درج ہو تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ مقامی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر تیار ہونے والی ایک جیسی ادویات کی قیمتوں میں اس حد تک فرق کیوں ہے۔

مزید سماعت 22 اگست کو ہو گی۔ از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس ایم جاوید بٹر پر مشتمل دورکنی بنچ نے بدھ کے روز کی۔ وزارت صحت کی طرف سے ڈرگ کنٹرولر ڈاکٹر فرناز ملک نے عدالت کی طرف سے ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرنے پر مفصل جواب پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزارت صحت اس بات کو یقینی بنانے کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے کہ ادویات کی قیمتوں کا بوجھ عام صارف پر کم سے کم کیا جائے۔

اس حوالے سے انہوں نے قیمتوں کے تعین کے حوالے سے رولز 2006ء متعارف کروایا ہے اور تمام کمپنیوں کو 6ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ اس قانون پر عملدرآمد کریں تاہم عدالت نے وزارت صحت کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے ایس آر او پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ عدالت کو مزید بتایا گیا کہ ان خواتین میں ڈرگز سے مراد وہ ادویات ہیں جو کہ وزارت صحت حکومت پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور زیادہ سے زیادہ قیمت سے مراد وہ قیمت ہے جو وفاقی حکومت ایک دوائی کی فروخت کیلئے مقرر کرتی ہے۔

لکھی قیمت میں رعایت سے مراد یہ ہے کہ فارمیسی کا لائسنس یافتہ یا ادویات خریدنے والا اصل قیمت پر 15 فیصد سے زائد منافع نہیں لے گا جو قیمت وفاقی حکومت نے مقرر کر رکھی ہے پیدا کار کو یہ اجازت دی گئی ہے وہ تاجر اور ڈاکٹر کو ال قیمت پر صرف 40 فیصد رعایت دے سکتا ہے لیکن اس رعایت کا اطلاق ان جگہوں پر نہیں ہو گا جہاں پبلک سیکٹر ہسپتال اور وہ ادارے ہیں جو کہ ہسپتالوں کے ساتھ منسلک ہیں جن میں تربیت دی جاتی ہے اور وہ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل سے منظور شدہ ہیں جو لوگوں کو مفت ادویات فراہم کرتے ہیں اگر کوئی کمپنی یا ادارہ اپنی دوائی کی قیمت بڑھانا یا کم کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسا اس وقت کر سکتا ہے جب دوائی کو زائد المعیاد ہوئے سال گزر جائے۔

قیمتوں کے تعین کی تاریخ کے حوالے سے وزارت صحت پہلے ہی تمام اداروں کو آگاہ کرے گی۔ اور ڈرگز کے حوالے سے کوئی تبدیلی وزارت صحت کی منظوری کے بغیر نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید عدلت کو بتایا کہ وہ ادویات جن کی قیمتیں درج بالا رولز کے تحت مقرر نہیں ہوں گی ان کی رجسٹریشن ختم کر دی جائے گی تاہم ایسا اس وقت کیاجائے گا جب تک کمپنی کے موقف سے آگاہی نہیں ہواجاتی۔ عدالت عظمیٰ نے ڈرگ کنٹرولر کی طرف سے تفصیلی رپورٹ سننے کے بعد انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنے ایس آر او پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور ایسا چار․ٹ عدالت میں بنا کر دیں جس میں تمام مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ایک جیسی ادویات کی قیمتیں دی گئی ہوں تاکہ قیمتوں کے فرق کا تعین ہو سکے۔