جنرل مشرف نے موجودہ اسمبلیوں سے منتخب ہونیکی کوشش کی تو فوری اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے، نواز شریف

پیر 20 اگست 2007 22:28

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20اگست۔2007ء) مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ جنرل مشرف نے موجودہ اسمبلیوں سے منتخب ہونیکی کوشش کی تو یہ ملک کے ساتھ ایک مذاق ہو گا جس کیخلاف ہم فوری طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے اور اس اقدام کا ایوانوں، عدالتوں اور میدانوں میں مقابلہ کریں گے۔ اگر جنرل مشرف وردی میں الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تو باقی وردی والوں اور دیگر اداروں کے لوگوں کو بھی الیکشن میں حصہ کی اجازت ہونی چاہئے، میں آج ہی وطن واپس آنا چاہتا ہوں لیکن جنرل مشرف کی وردی میری واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے، بندق کا مقابلہ عوام، آئین و قانون کی طاقت سے کریں گے، ملک میں مارشل لاء لگایا گیا تو جنرل مشرف اور اس کا نفاذ کرنے والے ذمہ دار ہوں گے، میرا مشن ملک کے اداروں کو سامراجی نظام، آمروں اور آمریت پسندوں کی قید سے آزاد کرانا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس دوران نواز شریف نے کہا کہ جنرل مشرف نہ آئین کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ قانون کی روح کو۔ اگر وہ وردی میں الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تو باقی وردی والوں کا کیا قصور ہے پھر سب وردی والوں اور دیگر اداروں کے لوگوں کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک میں ایک شخص کی خاطر قانون تبدیل کر دیئے جائیں پارلیمنٹ کو بے وقعت کر دیا جائے اور آئین اور قانون کی حیثیت نہ رہے تو وہ ملک کیسے چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کو مشورہ دینے والے اگر قانون کو سمجھتے ہیں۔ تو انہیں بتانا چاہئے کہ پاکستان اور مشرف میں فرق ہے، دونوں کو ایک ترازو میں نہ تولا جائے۔ نواز شریف نے کہا کہ اگر جنرل مشرف نے موجودہ اسمبلیوں سے منتخب ہونے کی کوشش کی تو ہم قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔ اور یہ پاکستان کے ساتھ مذاق ہو گا جس کا مقابلہ ہم ایوانوں، عدالتوں اور میدانوں میں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پوری سوسائٹی عدلیہ اور دیگر ادارے سوائے پیپلز پارٹی کے سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے آر ڈی کی جگہ اب اے پی ڈی ایم نے لے لی ہے، اے آر ڈی اب ایک غیر موٴثر پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ آج اے پی ڈی ایم میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں شامل ہیں۔ اے پی ڈی ایم اپوزیشن کا نمونہ بن چکی ہے۔

وطن واپسی کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ میں تو آج ہی بلکہ ابھی واپس آنا چاہتا ہوں اور ہر روز ہیتھر ایئر پورٹ کی طرف دیکھتا ہوں کہ کون سی فلائیٹ سے واپس جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ میری وطن واپسی کی راہ میں جنرل مشرف کی وردی رکاوٹ ہے۔ جنرل مشرف راستے میں کمانڈوز کے ساتھ ہاتھوں میں بندوق پکڑے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بندق کا مقابلہ بندوق سے نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کی بندوق کا مقابلہ پاکستان کی عوام آئین اور قانون کی طاقت سے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی ادارے کو بدنام کرنے کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں۔ میں نے یہ سنا ہے کہ جنرل مشرف نے ہدایت دی ہے کہ کوئی فوجی وردی پہن کر عوام کے بیچ نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی بد نصیبی اور ظلم کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے فوجی وردی پہن کر عوام میں نہ جا سکیں۔ ملک میں ایمرجنسی اور مارشل لاء کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مارشل لاء یا ایمرجنسی جنرل مشرف کی بس کی باتیں نہیں ہیں۔

انہیں صرف سیاسی منظر سے رخصت ہونا ہے۔ جتنی جلدی وہ رخصت ہوں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں مارشل لاء لگا تو جنرل مشرف اور اسے لگانے والے خود اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 60 سالوں بعد پاکستان کی عدلیہ آزاد ہوئی ہے اور پاکستان کے عوام جاگ اٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا مشن پاکستان کے اداروں کو سامراجی نظام، جنرل مشرف آمروں اور جیسے آمریت پسندوں کی قید سے آزاد کرانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا مشن اپنے آپ کو وزیراعظم کے منصب تک پہنچانا نہیں بلکہ پاکستان کو اس کے منظر کی طرف لے جانا اور تمام ترامیم کو ختم کرانا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ اگر ہم نے کسی ڈکٹیٹر سے بات کی تو پاکستان کو ڈکٹیٹر شپ سے کون بچائے گا۔ آج پاکستان کیلئے فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام مجھ خدمت کا موقع دیں گے تو اس کیلئے ضرور تیار ہوں لیکن اس سے ضروری پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، آئین کی 1973ء والی حیثیت میں دوبارہ بحالی اور آمریت کا خاتمہ ہے۔

مختلف اراکین اسمبلی کے رابطوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگوں نے ہمارے ساتھ رابطے کئے ہیں اور ان میں حکمران جماعت کے منتخب نمائندے بھی شامل ہیں۔ ہم ایک مشن کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم پھر اپنے اقتدار کی خاطر الٹے سیدھے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹی میں شامل کر لیں تو پھر ہم سات آٹھ سالوں میں کیا کرتے رہے انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یقیناً حکمران جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پہلے ہمارے ممبر نہیں بھی رہے لیکن وہ وہاں ہیں اور آج حالات و واقعات سے توبہ کر کے وہ دوسری طرف آنا چاہتے ہیں تو ان میں سے کچھ ایسے نام ہیں جو اچھے کردار کے حامل ہیں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اگلے ایک دو روز میں پارٹی کی اسلام آباد میں میٹنگ ہو گی جس میں یہ طریقہ کار طے کیا جائیگا کہ ایسے لوگوں کو کس طریقے سے پارٹی میں لیا جائے۔

نواز شریف نے کہا کہ ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ہماری جدوجہد سبوتاژ ہو اور نہ ہم ایسا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو قائد اعظم والا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :