پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں سال 2000ء تک 308 ملین امریکی ڈالر وصول ہوئے، ورلڈ بنک

پیر 22 اکتوبر 2007 19:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اکتوبر۔2007ء) عالمی بینک نے اپنی جاری کردہ رپورٹ 2008 میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں سال 2000ء تک 308 ملین امریکی ڈالر وصول ہوئے جن میں 2005ء تک 2.2 ملین امریکی ڈالر اضافہ ہوا جبکہ طویل المیعاد قرضوں کی شرح جو 2000ء تک 29.7 ملین امریکی ڈالر تھی 2005ء تک بڑھ کر31 ملین امریکی ڈالر ہوگئی ہے ۔

تفصیلات عالمی بینک نے پاکستان سے متعلق معاشی اقتصادی و سماجی ترقی کے حوالے سے 2008ء کی تفصیلی رپورٹ شائع کردی ہے جس کے مطابق قرضوں کی شرح، افراط زر، فی ہزار آبادی پر موبائل و انٹرنیٹ صارفین، اور زرعی زمینوں میں اضافہ جبکہ واجب الادا قرضوں کی واپسی، سال 2005ء کے مقابلے میں 2006ء میں جی ڈی پی، دفاعی اخراجات، شرح آبادی، جنگلات کے رقبے، ہائی سکول اور کالجوں میں اندراج میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

عالمی بینک کی جانب سے جاری رپورٹ 2008ء کے مطابق پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں سال 2000ء تک 308 ملین امریکی ڈالر وصول ہوئے جن میں 2005ء تک 2.2 ملین امریکی ڈالر اضافہ ہوا جبکہ طویل المیعاد قرضوں کی شرح جو 2000ء تک 29.7 ملین امریکی ڈالر تھی 2005ء تک بڑھ کر 31+ ملین امریکی ڈالر ہوگئی ہے پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں سال 2000ء تک 308 ملین امریکی ڈالر وصول ہوئے جن میں 2005ء تک 2.2 ملین امریکی ڈالر اضافہ ہوا جبکہ طویل المیعاد قرضوں کی شرح جو 2000ء تک 29.7 ملین امریکی ڈالر تھی 2005ء تک بڑھ کر 31+ ملین امریکی ڈالر ہوگئی امداد کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سرکاری سطح پر امداد کی مد میں 2000ء میں 692.4 ملین امریکی ڈالر موصول ہوئے جبکہ 2005ء تک یہ شرح 1.7 بلین تک جا پہنچی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے2006ء میں1.1 بلین امریکی ڈالر 2005ء میں 4.3 بلین امریکی ڈالر اور 2006ء میں 5.4 بلین امریکی ڈالر ترسیلات زر اور ورکرز کے لئے مراعات کی صورت میں موصول ہوئے رپورٹ میں اپریل 2007ء کے عالمی بینک شمارے کے مطابق پاکستان کا جی ڈی پی 2000ء میں امریکی ڈالرز میں 73.3 بلین ڈالر تھا جو 2006ء میں بڑھ کر 128.8 بلین امریکی ڈالر ہوگیا۔

جبکہ 2000ء تک جی ڈی پی میں سالانہ شرح نمو 4.3 فیصد، 2005ء میں بڑھتے ہوئے 7.3 فیصد اور 2006ء میں کمی کے ساتھ 6.2 فیصد رہی۔ رپو رٹ کے مطابق سالانہ افراط زر جو 2000ء میں 23.8 فیصد تھا 2005ء میں 8.7 فیصد اور 2006ء میں ایک بار پھر بڑھتے ہوئے 10.3+ فیصد تک پہنچ گیا زراعت ، صنعتوں، خدمات، برآمدات، درآمدات، آمدنی اور دیگر شعبوں میں جی ڈی پی کے لحاظ سے تناسب کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ زراعت کا حصہ 2000ء میں 26.2 فیصد، 2005ء میں 22.2 فیصد اور 2006ء میں 20.5 فیصد، صنعتوں کا حصہ جی ڈی پی میں 2000ء میں 22.6 فیصد، 2005ء میں 26.5 فیصد اور 2006ء میں 26.7 فیصد رہا خدمات اور دیگر شعبوں میں حصہ 2002 میں 51.2 فیصد، 2005ء میں 51.3 فیصد اور 2006 میں 13.6 فیصد، 2005ء میں 15.5 فیصد اور 2006ئگ میں بھی یہ شرح برقرار ر ہتے ہوئے 15.5 فیصد رہی ۔

گراس کیپٹل فارمیشن میں 2000ء میں 17.4 فیصد اضافہ ہوا 2005ء میں 18.1 فیصد جبکہ 2006ء میں مزید اضافہ کے ساتھ 20 فیصد رہی۔ رپو رٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امداد کے علاوہ جی ڈی پی میں آمدنی کا تناسب 2000ء میں 14 فیصد، 2005ء میں12.8 فیصد اور 2006ء میں منفی 13.3 فیصد رہا جبکہ کیش اور زائد خسارہ 2000 میں منفی 4.1 فیصد، 2005ء میں 3.2 فیصد اور 2006ء میں منفی 3.8 فیصد رہا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سطح پر کاروبار شروع کرنے کیلئے 24 دن درکار ہوتے ہیں جبکہ مقامی منڈی میں لسٹڈ کمپنیوں کی شرح میں جی ڈی پی کے تناسب سے سن 2000ء میں 9 فیصد، 2005ء میں 41.3 فیصد اور 2006ء میں 35.3 فیصد اضافہ ہوا دوسری جانب دفاعی اخراجات میں کمی دیکھی گئی اور2000ء میں جی ڈی پی کی مناسبت سے 4.1 فیصد تا 2005ء میں کم ہوکر 3.3 فیصد رہا۔

رپورٹ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں تیز ترین ترقی ہورہی ہے جس میں موبائل صارفین 2000 کے 24.3 فیصد کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے 2005ء میں 115.9 فیصد تک جا پہنچے جبکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے جو 2000ء میں ایک ہزار پر صرف 2.2 فیصد تھے 2004ء میں بڑھ کر 67.4 فیصد ہوگئے عالمی بینک نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے بھی اطمینان کا اظہار کیاہے اور رپورٹ میں دیئے گئے اعدادو شمار کے مطابق کہا ہے کہ آبادی میں شرح نمو جو 2000ء میں 2.4 فیصد تھی 2006ء میں 2.1 فیصد رہ گئی ہے شیر خوار بچوں کی اموات کی شرح جو 2000ء میں ایک ہزار پر 85 فیصد تھی جو2005ء میں کم ہو کر 79 فیصد رہ گئی ہے ایچ آئی وی ایڈز کی روک تھام کیلئے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی جو 15 سے 49 سال کی عمر تک کے افراد میں 0.1 فیصد کے تناسب سے برقرار ہے تعلیم کی شرح خواندگی کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے والوں کی شرح 63.2 فیصد اور اندراج 87.3 فیصد رہا سکینڈری سکولوں میں اندراج 26.9 فیصد جبکہ ہائی سکولوں اور کالجوں میں یہ سطح 4.6 فیصد کی سطح تک کم رہی۔

دوسری جانب لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن سطح پر 75.4 فیصد رہی 15 سال سے زائد عمر کی بالغ شرح خواندگی 49.9 فیصد رہی جنگلات کے حوالے سے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 2000ء میں 21,160 مربع کلو میٹر رقبے ضر جنگلات ظاہر کئے گئے تھے لیکن 2005ء میں یہ رقبہ گھٹ کر 190.020 مربع کلو میٹر رہ گیا زرعی زمین جو 2000ء میں 35 فیصد تھی بڑھ کر 35.1 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ صرف 89 فیصد افراد کو پینے کے صاف پانی اور اتنی ہی تناسب سے شہری علاقوں کے مکینوں کو نکاسی آب کی سہولیات میسر ہیں واضح رہے کہ برآمدات خدمات اور آمدنی کے تناسب سے قرضوں کی واپسی کی شرح 2000ء میں 25.7 فیصد تھی اور یہ 2005ء میں کم ہو کر 10.2 فیصد رہ گئی

متعلقہ عنوان :