پولیس تشدد کیس، سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر تک مکمل تفصیلات طلب کر لیں۔پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی علم نہیں ہوتا کہ قانون کیا ہے، از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس

منگل 23 اکتوبر 2007 18:40

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین23اکتوبر2007) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی علم نہیں ہوتا کہ قانون کیا ہے جبکہ عدالت نے 29 ستمبر کو وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں، وکلاء اور سول سوسائٹی پر پولیس تشدد کی مکمل تفصیلات 31 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ منگل کو صحافیوں ‘ وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر پولیس تشدد کے خلاف ازخودنوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر سربراہی میں تین رکنی بنچ جن میں جسٹس رانا بھگوان داس اور جسٹس شاکر اللہ پر مشتمل بنچ نے کی ۔

سماعت کے دوران بیرسٹر خالد انور نے عوام کے احتجاج کے موقع پر پولیس کی کارکردگی و کارروائیوں کو بہتر بنانے سمیت میڈیا کے ساتھ پیش آنے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ سیکورٹی کی فراہمی میں پولیس اگر غیرقانونی کارروائی کرے تو اس کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ڈیوٹیوں کے دوران تمام پولیس اہلکار یونیفارم میں ہوں اور ان کے نام پلیٹ واضح طور پر سامنے ہوں۔

(جاری ہے)

بیرسٹر خالد انور نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں پولیس شہریوں پر وحشیانہ تشدد کرتی ہے جو خلاف قانون ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پولیس آرڈر 2002ء کے تحت شہریوں کی آزادی اور ان کے جان و مال کی حفاظت اور سڑکوں کو ٹریفک کے لئے کھلا رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن اس میں ترامیم کر کے اسے انتظامیہ ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ پولیس کا خیال ہے کہ 1861ء پولیس ایکٹ قابل عمل ہے اگر پولیس آرڈر پر عمل درآمد کیا جائے تو ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ کارروائی کے دوران معطل آئی جی مروت علی شاہ نے تین رکنی بنچ کو بتایا کہ اسلام آباد میں پولیس آرڈر 1861ء نافذ العمل نہیں ہے۔ سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر نعیم سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو 29 ستمبر کو شاہراہ دستور پر تعینات کیا گیا ہے تو معطل ایس ایس پی نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی علم نہیں کہ قانون کیا ہے۔

چیف جسٹس نے سماعت کو 31 اکتوبر دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ وہ 29 ستمبر کو ہونے والے سول سوسائٹی اور وکلاء کے خلاف کیسز کی کارروائی کی تمام تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔ پولیس لاٹھی چارج و تشدد کے باعث جو سول سوسائٹی ممبر‘جرنلسٹس اور وکلاء زخمی ہوئے تھے پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی یا نہیں اس کی بھی تمام تر تفصیلات پیش کی جائیں جبکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی تعیناتی اور ان کی سروس کے تمام ریکارڈ بھی سپریم کورٹ میں پیش کئے جائیں چیف جسٹس نے نجی ٹی وی چینلز جیو‘ اے آر وائے اور آج ٹی وی کو بھی ہدایت کی کہ وہ 29 ستمبر کے واقعات کی ویڈیو ٹیپس بھی عدالت میں جمع کروائیں جبکہ ای ڈی پمز اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پولی کلینک کو ہدایت کی کہ وہ واقعہ میں زخمی ہونے والے تمام افراد کے میڈیکل سرٹیفکیٹس کے اصل ریکارڈ کے ساتھ حاضر ہوں ۔