بھارتی گجرات میں وزیراعلیٰ کے حکم پر ”جے شری رام“ آپریشن کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، پولیس ہندو انتہا پسندوں کو خود ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتی رہی‘ عورتوں کی عصمت دری کی گئی‘ بچوں کو ذبح کیا گیا

جمعہ 26 اکتوبر 2007 11:48

بھارتی گجرات میں وزیراعلیٰ کے حکم پر ”جے شری رام“ آپریشن کے نام پر ..
احمد آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین26اکتوبر2007) بھارتی صوبے گجرات میں 2002ء میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا‘ وزیراعلیٰ سمیت ریاستی حکومت کے وزراء اور اعلیٰ حکام نے مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دی‘ اور آپریشن کا نام ”جے شری رام“ رکھا گیا‘ پولیس ہندو انتہا پسندوں کو خود ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتی رہی‘ انتہا پسند ہندو تین دن تک معصوم مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے‘ عورتوں کی عصمت دری کی گئی‘ ایک سکول پر حملہ کرکے مسلمان بچوں کو ذبح کیا گیا۔

ایک بھارتی خبر رساں ایجنسی ”تہلکہ“ نے گجرات سانحہ کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گجرات میں 2002میں ہونے والے مسلم کش فسادات گودھرا ٹرین سانحہ کے نتیجہ میں اچانک اور فطری ردعمل نہ تھا بلکہ اس کے لئے ریاست اور مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی طفیلی جماعتوں ویشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے قبل از وقت منصوبہ بند طریقے پر تیاریاں کی تھیں۔

(جاری ہے)

گجرات میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور حکومت و انتظامیہ ان فسادات میں نہ صرف ممد و معاون بن رہی تھی بلکہ کئی ریاستی وزراء ،بیوروکریٹ اور پولیس افسران ان فسادات کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ یہ باتیں تہلکہ کے رپورٹروں نے خفیہ کیمرے کے سامنے مسلم کش فسادات میں ملوث دونوں جماعتوں کے سرکردہ اراکین کے ساتھ انٹرویو میں سامنے ریکارڈ کی ہیں۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جب 27فروری2002 کو گودھرا کے مقام پر سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگ گئی تو گجرات کی حکومت نے تین دن تک ہندو تنظیموں کو مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی نہ صرف کھلی چھوٹ دے دی بلکہ انہیں یہ بھی باور کرایاگیا کہ اس دوران ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ مسلمانوں کے خلاف شروع کئے گئے اس آپریشن کا نام ”جے شری رام “ رکھاگیا۔

ویشوہندوپریشد، آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی،کسان سنگھ اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کٹر اراکین پر مشتمل دہشت گرد جتھے تشکیل دیئے گئے جنہوں نے تین دنوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے قتل عام، عصمت ریزی اور آتش زنی کا بازار گرم رکھا۔ ساری ریاست میں مساجد اور درگاہیں تباہ کر دی گئیں۔صرف احمد آباد میں 75مذہبی مقامات کو نذرِ آتش کر دیاگیا، جبکہ صابر کھنڈمیں55 اور وڑودرہ میں22مساجد اور درگاہیں جلائی گئیں۔

گجرات کی نسلی صفائی کے دوران احمد آباد کے نزدیک نرودا گاؤں اور نرودا پٹیاں کے علاقوں میں مسلمانوں کا بدترین قتل عام ہوا، جہاں ایک مقامی بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی کی قیادت میں نہتے اور بے بس مسلمانوں پر چاروں طرف سے ہلہ بول دیاگیا۔27فروری کو ٹرین کی آتش زدگی کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی بجرنگی نے ویشو ہندوپریشد،بجرنگ دل اورقانونی طور جرائم پیشہ قرار دیئے گئے چھارا قبیلے کو اکٹھا کیا۔

تہلکہ نے سریش رچڑ اور پرکاش راتھوڑ نامی اس قبیلے کے دو افراد سے بات کی اور دونوں کو یہ یقین دلایاگیا تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام سے ہندو مذہب کی زبردست آبیاری ہوگی۔ 28فروری کو بجرنگی نے خونی ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے نرودا پٹیاں اور نروداگاؤ ں کے گلی کوچوں کو گھیر کر ہلہ بول دیا،اس موقعہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقامی ایم ایل اے، مایابین کودنانی، جو پیشے سے ایک ڈاکٹر ہے، قاتلوں کا حوصلہ بلند کرتا رہا۔

بجرنگی حملے کے کارروائی کے بعد فون پر ویشو ہندوپریشد کے جنرل سکریٹری دے جیپ پٹیل کو یہ اطلاع فراہم کرتا رہا کہ کہاں کتنے مسلمان قتل کئے گئے۔ یاد رہے نروداگاؤ ں میں بچ نکلنے والے لوگوں نے قتل عام کے لئے پٹیل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دن ختم ہونے پر ان دوبستیوں میں قتل کئے گئے مسلمانوں کی تعداد 2سوتھی۔ اس سے چند کلو میٹر کی دوری پر پریشد کے کچھ لیڈر سیگی نگر میں ”گلبرگ“ نامی ایک ہاوسنگ سوسائٹی کو نشانہ بنائے ہوئے تھے، جہاں زیادہ تر مسلمانوں کے رہائشی گھر تھے۔

تہلکہ نے یہاں قتل عام میں ملوث تین افراد منگی لال، پرلہاد راجو اور مدن چاولہ کے ساتھ بات کی،تینوں چھوٹے تاجر ہیں اورتینوں کیخلاف اس وقت کیس چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”گلبرگ“ جہاں کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کو بھی قتل کیاگیا، کے قتل عام کی قیادت پریشد کے لیڈران اْتل وید اور بھارت شیلی کر رہے تھے، جن کے نام ابتدائی طور پر ایف آئی آر میں آئے تھے لیکن بعد ازاں پولیس نے ان کے خلاف سارے الزامات واپس لے لئے۔

چاولہ نے احسان جعفری کے قتل کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ پہلے اْس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جعفری کو انگ انگ کاٹ کر الگ کر دیا اور بعد ازاں ان انگوں کا ایک ڈھیر بنا کر اْنہیں آگ لگا دی۔ اس بستی میں، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 39 افراد مارے گئے مگر ملوث لوگوں کے مطابق مقتولوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی، وہاں رہنے والے متوسط لوگوں کے علاوہ وہ غریب غرباء بھی گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے، جو جان بچانے کی خاطر آس پاس کی جھگی جھونپڑیوں سے بھاگ کر یہاں پناہ گزین ہوئے تھے۔

تہلکہ نے کالوپور اور دریاپور میں قتل عام کی منصوبہ بندی کرنے والے وی ایچ پی کے لیڈر راجندرویاس اور رامیش دادے سے بھی بات کی، جنہوں نے بتایا کہ جب سابرمتی ایکسپریس میں 59 کارسیوکوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اْنہوں نے پریشد کے کارکنوں سے کہا کہ ”مسلمانوں نے ایک روزہ میچ کھیل کر انہیں 60رنز کا ٹارگٹ دیا ہے۔ اب ہم 6روزہ میچ کھیل کرسورن بنائیں گے“۔

ویاس نے تہلکہ کے خفیہ کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ اْس نے اپنے ہاتھ سے 5مسلمانوں کوقتل کیا اور 9مکان نذرِ آتش کر دیئے رمیش داوے نے کہاکہ اْس نے ایسے مسلمانوں کو ”چْن چْن کے مارا“ جو پچھلے 20سالوں سے اس کی نظروں میں آگئے تھے۔2مارچ2002 کو بھاونگر ضلع میں قتل عام کا شکار ہوئے خاندانوں کے تقریباً 2سو بچوں نے ایک مدرسے میں پناہ لے لی تھی۔

جب ہندوبلوائیوں نے مدرسے پر ہلہ بولنے کی کوشش کی تو شہر کے ایس پی راہل شرما نے گولی چلائی جس سے ہجوم منتشر ہوگیا۔ دو ہفتوں تک اس شہر میں کم و بیش امن رہا، کیونکہ وقفوں وقفوں سے پولیس نے گولی چلائی تھی جس میں8لوگ مارے گئے تھے جن میں5ہندو اور3 مسلمان تھے۔16مارچ کو صبح ایس پی شرما کو ریاستی وزیر داخلہ گوردھن زاپھیا کا فون آیا،جس میں اْس نے شرما کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پولیس فائرنگ میں مرنے والوں کا تناسب ٹھیک نہیں ہے،اْس نے فائرنگ میں زیادہ ہندوؤں کے مرنے کی شکایت کی۔

تہلکہ رپورٹ کے مطابق فسادی ہجوم پولیس کے سامنے ہتھیار اورگولہ بارود اکٹھا کر رہے تھے،لیکن انہیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرناپڑتا تھا بلکہ ضرورت پڑنے پر پولیس کی طرف سے ان کی اعانت کی جاتی تھی۔

متعلقہ عنوان :