سندھ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ، ہفتہ وار تعطیل کا اعلان، ڈیوٹی 12 گھنٹے ہوگی، پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کا قیام، شہید اہلکاروں کے معاوضے میں اضافہ

بدھ 16 اپریل 2008 20:52

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16اپریل۔2008ء ) سندھ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہیں اضافہ کرکے پنجاب پولیس کے مساوی کردی گئی ہیں جبکہ صوبے میں امن وامان کی بحالی کے لئے محکمہ پولیس میں 8 ہزار 500 خالی اسامیوں پر اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر جلد ہی تقرریاں عمل میں لائی جائیں گی۔ سندھ میں دوران ڈیوٹی شہادت پانے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو 3 لاکھ روپے کی بجائے پنجاب پولیس کی طرح بطور معاوضہ ادا کیا جائے گا اور قریبی رشتہ دار کو پولیس میں نوکری دی جائے گی۔

جرائم کی بروقت سرکوبی کے لئے پولیس کمپلینٹ اتھارٹی قائم کی جارہی ہے جبکہ آئندہ کسی پولیس اہلکار سے بارہ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی نہیں لی جائے گی جبکہ ہر اہلکار کو ہفتہ وار تعطیل دینے کے علاوہ بہترین طبی سہولیات کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے گی۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں پانچ سالہ پروگرام مرتب کرکے پانچ ارب روپے سالانہ اضافی بجٹ سے اضافی فراہم کئے جائیں گے۔

سانحہ 18 اکتوبر کی ضرورت پڑنے پر غیر ملکی تحقیقات بھی کروائی جاسکتی ہے۔ یہ بات پولیس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بدھ کی شام پولیس ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ اس موقع پر آئی جی پولیس سندھ ڈاکٹر شعیب سڈل اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز وسیم احمد بھی موجود تھے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ سندھ میں امن وامان قائم کرنے خاص طور پر کراچی وحیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں صورتحال کو بہتر بنانے اور معاشرتی برائیوں کو قابو میں رکھنے کے لئے سندھ پولیس کی مشکلات کو دور کرنا ضروری تھا۔

جس کے بغیر حالات پر قابو پایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شعیب سڈل کی آئی جی سندھ کی حیثیت سے تقرری صوبے کے لئے خوش آئند ہے جبکہ اسٹریٹ کرائم، ہائی وے ڈکیتیاں، تاوان کی وصولی، بینک ڈکیتیاں اور موبائل چھیننے جیسی وارداتوں کے خاتمے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب اور سندھ میں محکمہ پولیس کے لئے الگ الگ معیارات مقرر ہیں۔

پنجاب میں 275 افراد کے لئے ایک پولیس اہلکار موجود ہیں جبکہ سندھ میں 550 افراد کے لئے صرف ایک اہلکار ہے اس کے علاوہ دونوں صوبوں کی پولیس کی تنخواہوں میں بھی واضح فرق تھا جسے آج دور کیا جارہا ہے جبکہ آئندہ چل کر سندھ پولیس کی تنخواہوں میں مزید اضافہ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جام شہادت نوش کرنے والے پولیس اہلکار کے ورثاء کو پانچ لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں جبکہ سندھ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار کے لواحقین کو صرف تین لاکھ روپے دیئے جاتے تھے چنانچہ آج اسے سندھ پولیس کے شہید ہونے والے اہلکار کے لواحقین کو بھی پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ سلسلہ برقرار رہا کہ پولیس افسر اور اہلکار 16 سے 20-20 گھنٹے تک ڈیوٹیاں دیتے رہے مگر اب یہ نظام ختم کیا جارہا ہے اور آج سے کوئی بھی پولیس افسر یا اہلکار بارہ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی نہیں کرے گا جبکہ آئندہ چل کر ڈیوٹی کا وقت آٹھ گھنٹے کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سندھ پولیس کا کوئی بھی اہلکار یونیفارم کے بغیر فرائض انجام نہیں دے گا۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے نام پر بااثر شخصیات کی حفاظت پر مامور اضافی پولیس اہلکاروں کو واپس طلب کرلیا جائے گا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ تربیت حاصل کرنے والے پولیس ریکروڈ بنیادی سہولیات سے محروم تھے ان کو بھی آج سے انسانی ماحول فراہم کیا جائے گا۔ دوسری جانب پولیس ہسپتال کی حالت نہایت خراب ہے اور پولیس اہلکاروں کے لئے طبی سہولیات کا فقدان ہے چنانچہ اس جانب خصوصی توجہ دی جائے گی اور فوج کی طرح محکمہ پولیس میں بھی میڈیکل کا الگ شعبہ بنایا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اہلکاروں کے لئے ہفتہ وار تعطیل کا نہ ہونا باعث شرمندی اور باعث افسوس تھا آج سے ہر افسر اور اہلکار کو مرحلہ وار ہفتہ وار تعطیل کا حق حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جرائم کی سرکوبی کے لئے پولیس کمپلین اتھارٹی قائم کی جارہی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی رپورٹ مرتب کرے گی اور شکایات کا ازالہ کرے گی۔

ابتداء میں یہ اتھارٹی پولیس ہیڈ کوارٹر میں قائم کی جائے گی جو آگے چل کر مرحلہ وار ہر ضلع میں کام کرے گی۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہا کہ جرائم سے نمٹنے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے محکمہ پولیس کی لیگل برانچ کو دوبارہ فعال کیا جائے گا تاکہ لوگوں کو انصاف مل سکے اور مجرموں کو سزا مل سکے اس سلسلے میں اعلیٰ مشاعرے پر دو باصلاحیت وکیل مقرر کیے جائیں گے جو جرائم کے مختلف مقدمات میں استغاثہ کی پیروی کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دلوانے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بدمعاشوں اور شرارتیوں کو باز رکھنے کے لئے سخت اقدامات کرنا پڑیں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرتے ہوئے ان کی آزادی کا بھرپور خیال رکھا جائے گا اور ظلم وستم کرنے والے عناصر کی سرکوبی کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں کو آئی جی کے علاوہ میری جانب سے تعینات کئے گئے ڈی آئی جی صاحبان اور پولیس اسٹیشنوں کے ایس ایچ اوز پسند نہیں لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں ہر کیس پر الگ الگ غور کیا جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد پیش آنے والے واقعات میں حقیقی متاثرین کو معاوضے ادا کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں پولیس میں بدعنوانی کو ختم نہیں کرسکا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاؤں گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور دوسرے مافیا کے علاوہ کنٹری گریبرز سے بھی نمٹنا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ کراچی کا قدیم علاقہ لیاری نہایت اہمیت کا حامل ہے وہاں پر جاری گینگ وار کی بنیادی وجہ نوجوان طبقے میں بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے وہاں پر منشیات کا استعمال اور منشیات فروشوں کا اثر بڑھ گیا ہے اس سلسلے میں بھی ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ایک ذہنی مریض ہیں جن کے علاج کے لئے ماہر نفسیات کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے۔

انہوں نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ 18 اکتوبر کے لئے قائم کئے جانے والے ٹربیونل کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی قبول نہیں کیا تھا۔ آئندہ اس سانحے کی تحقیقات کے لئے نئی کمیٹی یا ٹربیونل بنایا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر واقعے کی غیر ملکی تحقیقات بھی کروائی جاسکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :