سپریم کورٹ نے الیکشن لڑنے کیلئے بی اے کی شرط ختم کر دی

پیر 21 اپریل 2008 16:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اپریل۔2008ء) سپریم کورٹ نے رکن اسمبلی بننے کے لیے گریجویشن کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ فیصلہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے گریجویشن کی شرط کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر سنایا گیا۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ گریجویشن کی شرط آئین کے آرٹیکل 17اور25سے تصادم ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ضمنی انتخابات میں بھی ایسے امیدوار جنہوں نے بی اے کا امتحان پاس نہیں کیا حصہ لے سکتے ہیں۔

پیر کو سماعت شروع ہونے پر سپریم کورٹ بنچ کے جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے کہا کہ اگر اس شرط کو حکومت خود ختم کرنا چاہتی ہے تو وہ کر سکتی ہے اور اس میں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے ۔اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے کہا کہ یہ قانون فرد واحد کا بنایا گیا قانون ہے اور سپریم کورٹ کو یہ حق ہے کہ وہ اس اقدام کو ماورائے آئین قرار دے کر اس کو ختم کر سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوتی ہے اور اگر یہ شرط لازمی ہے تو ہر شخص کو لاء گریجویٹ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون جمہوریت کی نفی ہے اور پولیٹیکل جسٹس کے خلاف ہے ۔انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس شرط سے ملک میں ایک طبقہ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں قانون ہے کہ ممبر قانون ساز اسمبلی کو میٹرک ہونا چاہیے ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ووٹروں پر چھوڑ دینا چاہیے کہ کون گریجویٹ ہے اور کون نہیں۔یہ قانون حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں بی اے کی ڈگری کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ گوہر ایوب جو کہ قومی اسمبلی میں سپیکر رہے ہیں وہ گریجویٹ نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہ لے سکے ۔

اس سے قبل فیڈریشن کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ نیاز راٹھور نے کہا کہ یہ ایک غلط قانون ہے جس کو ختم ہو جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کو لاء سیکریٹری کی طرف سے احکامات ملے ہیں کہ ایسا قانون ہونا چاہیے جو کہ معاشرے کے تمام طبقوں کو قابل قبول ہو۔اس قانون کے حق میں ریسپونڈنٹ کے وکیل اسلم خاکی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسی درخواستیں دو ہزار دو کے انتخابات سے پہلے بھی دائر ہوئی تھیں اور ایک درخواست پاکستان مسلم لیگ قاف کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی جس میں بی اے کی شرط کو چیلنج کیا گیا تھا اس پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے درخواشت کو مسترد کردیا تھا اور اس شرط کو برقرار رکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی شرط کے تحت دو ہزار دو اور آٹھ کے انتخابات ہوئے ہیں اور جن قوانین کو آئینی تحفظ ملا ہو انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اگر اس کو تبدیل کرنا ہے تو پھر صدر کے تین نومبر کے اقدامات کو بھی تبدیل کریں جن کو سپریم کورٹ نے درست قرار دیا ہے ۔ اسلم خاکی نے کہا کہ اس سماعت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اٹارنی جنرل قانون کے تحفظ کی بجائے درخواست گزار کی حمایت کر رہے ہیں۔

اسلم خاقی نے کہا کہ اگر یہ درخواستیں منظور ہو جاتی ہیں تو یہ اسمبلیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سترہویں ترمیم کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور سپریم کورٹ یا کوئی اور عدالت اس کو تبدیل نہیں کر سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر کے تین نومبر کے اقدامات آئین کا حصہ نہیں ہیں اور پارلیمنٹ اس کو ایک سادہ اکثریت سے مسترد کر سکتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے صدر کے تین نومبر کے اقدامات کو درست قرار دیا ہے لیکن ان اقدامات کو آئین کا حصہ بنانے کی بات نہیں کی گئی۔

اسلم خاکی نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ہر شخص کا حق ہے جبکہ عوام کی نمائندگی ایک اہم معاملہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل کامران مرتضیٰ قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف پچیس لاکھ افرد گریجویٹ ہیں اور ان کی زیادہ تعداد شہری علاقوں میں ہیں اور ان پچیس لاکھ میں سے بھی بہت سے افراد ایسے ہیں جو انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے اور اس شرط پر صحیح طور پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ دو ہزار دو کی گریجویٹ اسمبلی نے صرف پچاس بل پاس کیے جبکہ نواز شریف کی دوسری حکومت میں اسمبلی نے ڈھائی سال میں چوہتر بل پاس کیے ۔

متعلقہ عنوان :