این آئی ایچ کو نجی تحویل میں دیا گیا تو غریب عوام اورسستی ویکسین لینے والے سرکاری ہسپتال بری طرح متاثر ہوں گے‘میجر جنرل(ر)مسعود انور۔۔حکومت نے 1980ء کے بعد سے ادارے کو کوئی بڑی امداد نہیں دی اور نہ ہی ویکسین تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کیاگیا۔حکومت اگر وسائل فراہم کرے تو این آئی ایچ ہر قسم کی ویکسین کم قیمت پر عوام کو فراہم کر سکتا ہے

اتوار 8 جون 2008 15:33

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین08جون2008 ) قومی ادارہ صحت(این آئی ایچ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل (ر)مسعود انور نے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ)کی نجکاری کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس ادارے کو نجی تحویل میں دیا گیا تو غریب عوام اور رعایتی نرخوں پر کتے اور سانپ کے کاٹنے کی ویکسین حاصل کرنے والے سرکاری ہسپتال بری طرح متاثر ہوں گے-حکومت نے 1980ء کے بعد سے ادارے کو کوئی بڑی امداد نہیں دی اور نہ ہی ویکسین تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کیاگیا-صرف الزام تراشی کا تحفہ دیا جاتا ہے حکومت اگر وسائل فراہم کرے تو این آئی ایچ ہر قسم کی ویکسین کم قیمت پر عوام کو فراہم کر سکتا ہے- انہوں نے کہا کہ ا گر حکومت قومی ادارہ صحت کی نجکاری کرتی ہے تو اس سے نہ صرف ملک نے غریب عوام پر اسکا براہ راست اثر پڑے گا بلکہ وہ سرکاری ہسپتال جنھیں رعائتی نرخوں پر ویکسینز فراہم کی جاتی ہیں بھی متاثر ہوں گے کیونکہ پاکستان میں سرکاری سطح کا واحد ادارہ ہے جو وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچاؤ کیلئے ویکسینز تیار کر رہا ہے 1980ء سے حکومت نے ادارہ میں تیار کردہ ویکسینز کی اپ گریڈیشن کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے ۔

(جاری ہے)

نہ سا لانہ گرانٹ میں اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی ویکسینز کی تیاری کے لئے جدید ٹیکنالو جی متعارف کرائی گئی ہے جو ویکسینز تیار کی جاتی ہیں وہ پرانے طریقہ کار اور دستیاب وسا ئل کے تحت ہیں جوبیماریوں کے خلاف زیادہ موثر نہیں ہوتیں جس سے انتطامیہ پر فرسودہ ویکسینز اور بد عنوانیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔وسائل ،جدید ٹیکنا لو جی کی کمی اورمحدود فنڈسے ادارہ تنزلی کا شکار ہے حکو مت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ قومی ادارہ صحت بنیادی طو ر پر 1948ء میں بھارت سے آنے والے مہاجرین کی مدد سے بیورو آف لیبارٹرری کے نام سے کراچی میں قائم کیا گیا ۔1962ء میں اسے اسلام آباد میں منتقل کیا گیا اور اس کا نام تبدیل کرکے قومی ادارہ صحت رکھ دیا گیا اس کا مقصد بیماریوں کی تحقیق و تشخیص ،کتے اور سانپ کے کاٹے کی ویکسینزتیار کرنا تھا 1980ء میں حکومت نے اس کو ایک خود مختار ادارہ قرار دے دیااور انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت وسائل بڑھا کر پروڈکشن کو بڑھائے لیکن حکومت کی طرف سے گرانٹ کم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر افرادی قوت بھی بہت کم تھی اور جو آمدن آتی تھی اسکو پیداوار بڑھانے پر خرچ کرنے کی بجائے اسکا ایک بڑاحصہ دوسرے فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتاجس سے ادارہ تنزلی کا شکار ہو گیا۔

1964ء میں پاکستان کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی ،مشینری اور لیبارٹری قائم کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں کو ئی توسیع نہیں کی گئی جبکہ آبادی تین گنا بڑھ گئی ہے اور ویکسینز کی پروڈکشن وہی ہے اور اس وقت کتوں کی تعدا د کم تھی اس کے علاوہ آوارہ کتوں کے خاتمے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے حکومت نے وقت کے ساتھ ساتھ لیبارٹریز اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنا چاہیے تھا اس بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارہ صحت نے کہا کہ اس وقت بائیو لوجیکل پروڈکشن ڈویژن میں 450سے 500ملازمین کام کرتے ہیں جبکہ قومی ادارہ صحت کے کل ملازمین کی تعداد ایک ہزارسے زائد ہے ۔انہوں نے کہا کہ ۔ملک بھر میں بچو ں کو حفا ظتی ٹیکوں کے ساتھ ساتھ پولیو ،خسرہ،ٹائیفائیڈ،ہیضہ،خناق،کالی کھانسی اور الرجی کی ویکسینز بھی فراہم کرتا ہے وزارت صحت ان پروگراموں کے لئے فنڈ مہیا کرتی ہے جبکہ قو می ادارہ صحت خود اقوام متحدہ کی منظور کردہ کمپنی سے ویکسینز خریدتا ہے اس ادارہ کو وزارت صحت ،بین الاقوامی مخیرحضرات اور عا لمی ادارہ صحت فنڈ فراہم کرتا ہے اس ادارہ کا مقصد کتے اور سانپ کے کاٹے کی ویکسینز تیار کرنا، ادویات اور پینے کے پانی کے معیار کو چیک کرنا اور بیماریوں کی تشخیص کے لئے لیبارٹریز موجود ہیں جبکہ جدید ٹیکنالوجی اور محدود فنڈ کی وجہ سے ادارہ تنزلی کا شکار ہے ۔

پولیو کی ویکسینز کیلئے عا لمی ادارہ صحت اور یونیسف سالا نہ 2ارب روپے فراہم کرتا ہے ادارہ کتے اور سانپ کے کاٹے کی 30سے 40ہزاروائلزتیار کرنے کی استعداد رکھتا ہے جبکہ ملکی ضرورت 90ہزار وا ئلز سے زیادہ ہے۔یہ ادارہ وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام ،پینے کے پانی کی صفائی کا طریقہ،بیماریوں سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اور آگہی مہم چلاتا ہے ۔

انہوں نے تجویز دی کہ اگر حکومت قومی ادارہ صحت کی نجکاری کرناچاہتی ہے تو وہ اس کی مکمل نجکاری نہ کرے اس کے بائیو لوجیکل پروڈکشن ڈویژن کو خود مختاررہنے دیا جائے یااس کی نجکاری کی بجائے حکومت اسے اپنی تحویل میں لے تاکہ وہ ویکسینز تیار کر کے ایمر جنسی میں بروقت ملکی ضرویات کو پورا کیا جا سکے ۔اگرقومی ادارہ صحت کی نجکاری کی جاتی ہے توحکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ ادارہ غیر ہاتھو ں میں چلایا جائے گا اور ویکسینز کی قیمتوں اورمعیارپر کنٹرول مشکل ہو جائے گا اور ملک میں انتہائی نازک حا لات میں ویکسینز کی بر وقت فراہمی ایک خواب بن جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تین نجی کمپنیا ں کتے اور سانپ کے کاٹے کی ویکسینز درآمد کررہی ہیں جن میں سندھ میڈیکل ،سیر ن فارماکتے کے کاٹے کی جبکہ ایم سن کمپنی کتے اور سانپ دونوں ویکسینز انڈیا اور فرانس سے درآمد کر رہی ہے لیکن جو ہماری تیا ر کردہ ویکسینز ہیں وہ ان کے مقابلے میں سستی اور زیادہ اچھی ہیں ۔ہمارا کورس 5سو روپے میں جبکہ امپورٹڈ کورس 25سو میں پڑتا ہے کیونکہ ہم سانپ کے کاٹے کی ویکسینز سندھ میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے سانپ کے زہر سے تیار کرتے ہیں جودرآمد شدہ ویکسینز سے دو سو فیصد موثر ثا بت ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ رابیز ویکسینز کی درآمد کے لئے این آئی ایچ او ر برازیلن لینسنٹ بائیوکمپنی کے مابین مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے گئے ہیں یہ کمپنی دنیا کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے اور عالمی ادارہ صحت کی طر ف سے منظورشدہ ہے۔

مسعود انور نے کہا کہ ویکسینز کی اپ گریڈیشن کے لئے مزید فنڈز اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے سمری وزارت صحت اور خزانہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سالانہ گرانٹ6کروڑ 50لاکھ ہے جبکہ قومی ادارہ صحت کو ملک بھر میں ویکسینز فراہم کرنے کیلئے سالا نہ 25کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(پی ایم اے) کے صدر ڈاکٹر ارشد رانا کی طرف سے لگائے گئے الزام کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو پی ایم اے کے صدرقومی ادارہ صحت کی طرف سے ملک بھر میں فراہم کی گئی کتے کے کاٹے کی ویکسینز کو فرسودہ کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ملک میں زندگی بچانے والی ویکسینز کی قلت کا واویلا کرتے ہیں اب جبکہ این آئی ایچ قلیل وقت میں مسا ئل پر قابو پانے کے ٹھو س اقدامات کر رہا ہے تووہ روکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ قومی ادارہ صحت تما م سرکاری ہسپتالوں میں ویکسینز فراہم کرنے والا واحد ادارہ ہے جب ہسپتال طے شدہ مقدار بڑھانے یا تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تواسے مالیات اور ٹیکنیکل وسائل کی کمی کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے جس سے ویکسینز کی بروقت فراہمی مشکل ہو جاتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :