صدر مشرف کو مستعفی ہو جانا چاہیئے۔ معین الدین حیدر۔۔۔ 2002ء میں امریکی اتحادی بن جانے کے بعد صدر پرویز نے کابینہ، جی ایچ کیو اور ہائی کمان کو نظر انداز کیا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال

منگل 10 جون 2008 15:23

صدر مشرف کو مستعفی ہو جانا چاہیئے۔ معین الدین حیدر۔۔۔ 2002ء میں امریکی ..
کراچی (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین10جون2008 ) پاکستان کے سابق وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ 2002ء میں امریکی اتحادی بن جانے کے بعد صدر پرویز نے کابینہ، جی ایچ کیو اور ہائی کمان کو نظر انداز کیا؛ انہیں مواخذے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ معین الدین حیدر گورنر سندھ، وفاقی وزیر داخلہ، کور کمانڈر لاہور بھی رہ چکے ہیں؛ وہ پاک فوج میں صدر پرویز مشرف کے سینئر اور نہایت قریبی رفیق سمجھے جاتے ہیں، ان کا اور صدر پرویز مشرف کا 1961ء سے ساتھ ہے۔

ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ 2002ء کے الیکشن میں زبردست دھاندلی ہوئی تھی اور اس حوالے سے ایجنسیوں اور رینجرز نے اہم کردار ادا کیا تھا، میرے خیال میں کارگل پر شاید نواز شریف کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا؛ صدر پرویز اکثر جونیئرز کو یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے کہ آپ کو تجربہ نہیں، جیسے جیسے ان کی سینیارٹی بڑھتی گئی ویسے ہی انکا اختلاف برداشت کرنیکا حوصلہ کم ہوتاگیا۔

(جاری ہے)

جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ صدر پرویز مشرف چونکہ تقریبا 9سال آرمی چیف رہے اور یہ عرصہ اتنا طویل ہوگیا کہ وہ لوگ جو ان سے جونیئر تھے اور جن کا سنیارٹی لیول بہت نیچے تھا‘ بہت زیادہ کھل کر اپنے چیف سے بات نہیں کرسکتے تھے۔ صدر مشرف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ شروع میں، جب میں کابینہ میں تھا ‘ وہ کافی حد تک دوسرے کی رائے کااحترام کرتے تھے لیکن جوں جوں ان کی مدت ملازمت بڑھتی گئی، ان میں اختلاف برداشت کرنے اور دوسروں کی آرا سننے کا حوصلہ بھی کم ہوتا گیا۔

وہ اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنے لگے اور دوسروں کی آرا کو یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے کہ آپ کو زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے معین الدین حیدر نے کہا کہ کارگل کی وجہ سے میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان بے اعتمادی بڑھی لیکن اگر دونوں کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا تو یہ وزیراعظم کا حق تھا کہ وہ پرویزمشرف کو بلاتے اور کارگل کے حوالے سے جو غلط فہمیاں تھیں، ان پر کھل کر بات کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دن جنرل جمشید گلزار کیانی مجھے کھانے پر ملے اور مجھ سے شکایت کہ کہ ہم بہت سی باتیں پرویز مشرف صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں کامیابی نہیں ہوتی۔ جمشید گلزار کیانی کی اس شکایت سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ جب 2002ء میں وہ امریکا کے قریبی اتحادی بن گئے تو ان کی تمام تر توجہ امریکہ کی جانب مبذول ہوگئی اور وہ کابینہ ‘ ہائی کمان اور جی ایچ کیو کو نظر انداز کرنے لگے۔

ہمیں یہ انداز ہ تھا کہ امریکا کا کوئی فوجی اڈا پاکستان میں نہیں اورصدر پرویز مشرف نے بھی یہی یقین دہانی کرائی تھی لیکن بعد میں امریکی سینٹرل کمان نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ہمارے 64 ہزار فوجی پاکستان کی سرزمین پر ہیں، میں وزیر داخلہ تھا لیکن مجھے دکھ ہے کہ مجھے اتنی بڑی حقیقت سے لاعلم رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے لوگوں اور دوسرے افراد کو ایجنسیوں نے پکڑا،جن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔

ہم نے تقریباً 600 افراد پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے اور اس کام میں آئی ایس آئی کا کردار نمایاں تھا۔ ایف بی آئی کے لوگ پاکستان میں موجود تھے۔ لاپتہ افراد کو بگرام لے جایا جا تا تھا‘ ملکی عدالتوں میں کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میری صدر مشرف سے دوستی 61ء سے تھی، تاہم تین سال کابینہ میں رہ کر میں نے دیکھا کہ صدر صحیح معنوں میں کسی پر اعتماد کر تے ہیں تو وہ شوکت عزیر تھے ،وہ ان کی کسی بات کو ردّ نہیں کرتے تھے۔